1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نطشے کا سپرمین اور اقبال کا انسانِ کامل

15 اپریل 2008

اُنیسویں صدی کے مشہور جرمن ادیب اور فلسفی فریڈرِش نطشے اِن دِنوں ایک بار پھر مختلف حوالوں سے خبروں میں ہیں۔ حال ہی میں مشرقی جرمن شہر وائیمار میں جدید کلاسیکی ادب اور فریڈرِش نطشے کے عنوان کے تحت ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد ہوا۔ اِس چار روزہ اجتماع میں جرمنی اور دُنیا بھر سے گئے ہوئے ایک سو سے زیادہ دانشور شریک ہوئے اور اُنہوں نے Georg Trakl، فرانز کافکا، Robert Musil، البیئر کامیو، تھوماس مان، گیرہارڈ ہاؤ‎پٹ مان اور Got

https://p.dw.com/p/DlPA
جرمن ادیب اور فلسفی فریڈرِش نطشے
جرمن ادیب اور فلسفی فریڈرِش نطشے

tfried Benn جیسے شاعروں، ادیبوں اور ڈرامہ نگاروں پر نطشے کے اثرات پر سیر حاصل بحث کی۔ پاکستان کے ممتاز ماہرِ اقبالیات خرم علی شفیق کے مطابق شاعر مشرق علامہ اقبال اور نطشے کے اَفکار میں کچھ مماثلت تو ضرور ہے لیکن یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ اقبال نطشے سے متاثر تھے۔

فریڈرِش نطشے کے حالاتِ زندگی
فریڈرش نطشے 15 اکتوبر سن 1844ء کو موجودہ جرمن صوبے سیکسنی کے ایک گاؤ‎ں Röcken میں ایک پادری کے ہاں پیدا ہوئے۔چار برس کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہونے کے بعد نطشے کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی، جہاں صرف خواتین ہی تھیں۔ یوں زیادہ تر وقت گھر سے باہر گذارنے والے نوعمر نطشے کو اپنے اردگرد کی دُنیا پر غور و فکر کے مواقع ملتے تھے۔

وہ بارہ سال کے تھے، جب مقامی اسکول کے اساتذہ نے موسیقی اور زبان و ادب کے حوالے سے اُن کے اندر چھپی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیا۔ تب نطشے کو اس وقت کے ایک ممتاز تعلیمی ادارے فورٹا کے لئے وظیفہ مل گیا۔ اِسی بورڈنگ اسکول میں ایک طرف وہ نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی دکھاتے رہے اور ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی تخلیق کرنے میں بھی مصروف رہے۔

نطشے نے گیت لکھے بھی اور اُن کی دھنیں بھی بنائیں لیکن آگے چل کر اُن کا اصل میدان فلسفے اور لسانیات پر اُن کی معرکة الآراء تصانیف بنیں۔ 20 سال کی عمر میں وہ پروٹسٹنٹ کلیسا کے کلاسیکی علمِ لسانیات کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے لئےبون آئے۔ تاہم بون یونیورسٹی میں ایک ہی سمسٹر کے بعد وہ مشرقی جرمن شہر لائپسگ منتقل ہو گئے۔ وہاں اُنہوں نے خود کو مکمل طور پر زبان کے کلاسیکی علم اور تاریخی پس منظر میں زبانوں کے تقابلی جائزے پر تحقیق کے لئے مخصوص کر دیا۔ ساتھ ساتھ فلسفے کی دُنیا بھی اُن کی دلچسپی کا محور و مرکز رہی۔

25 سال کی عمر میں وہ بازَل یونیورسٹی میں کلاسیکی لسانیات کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اِسی دوران اُن کی ملاقات مایہ ناز جرمن موسیقار رچرڈ واگنرَ کے ساتھ ہوئی، جن کے اَفکار ہی کے زیرِ اثر نطشے کی کتاب The Birth of Tragedy تخلیق ہوئی۔

موسیقار واگنر کے ساتھ نطشے کی دوستی رفتہ رفتہ انتہا درجے کی دشمنی میں بدلتی چلی گئی۔ بچپن ہی سے مختلف طرح کے عارضوں میں مبتلا نطشے نے بالآخر 35 سال کی عمر میں ہی قبل از وقت پنشن لے لی اور خود کو مکمل طور پر لکھنے لکھانے کے لئے وَقف کر دیا۔ مذہب بیزار نطشے نے خدا کے وجود سے انکار کیا اور اپنی کتابوں The Anti Christ اور A Genealogy of Morals میں یہودی اور مسیحی مذہبی روایات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ اِس دُنیا میں انسان کے وجود کے ایک نئے جواز اور نئے مفہوم کی تلاش میں تھے۔

45 سال کی عمر میں وہ فالج کے پَے در پَے دَوروں کے بعد ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتے چلے گئے۔ اپنی عمر کے آخری برس اُنہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ گذارے اور والدہ کے انتقال کے تین برس بعد 25 اگست سن 1900ء کو وہ خود بھی انتقال کر گئے۔ اُنہیں اُن کے آبائی گاؤ‎ں Röcken میں اُن کے خاندانی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

نطشے کے گاؤں Röcken کے نیچے اور آس پاس کوئلے کے بیش بہا ذخائر موجود ہیں۔ کوئلہ نکالنے والے امریکی ادارے Mibrag نے یہ کوئلہ نکالنے کے لئے اِس گاؤں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم ایک طرف اِس گاؤں کے باسیوں نے اپنے مشہورِ عالم فرزند نطشے کی قبر کا واسطہ دیا اور دوسری جانب یہ ادارہ خود بھی اِس نتیجے پر پہنچا کہ اِس گاؤں کو کہیں اور منتقل کرنے پر خرچ زیادہ آئے گا جبکہ یہاں سے برآمد شُدہ کوئلے سے اُتنی آمدنی حاصل نہیں ہو سکے گی۔ چنانچہ حال ہی میں جرمن صوبے سیکسنی اَنہالٹ کے وزیر اقتصادیات Rainer Haseloff نے اِس ادارے کے ساتھ کئی ہفتوں کے مذاکرات اعلان کیا کہ نطشے کے گاؤں اور نواح سے کوئلہ نکالنے کا پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے اور اِس گاؤں کو کسی اور جگہ منتقل نہیں کیا جائے گا۔ ہر سال دُنیا بھر سے نطشے کے مداح یہ گاؤں دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔

نطشے اور اقبال
جرمن شاعر اور فلسفی فریڈرش نطشے کی فکر اور نظریات کو کچھ حلقے ہدفِ تنقید بناتے ہیں تو کچھ دیگر اُن کو سراہتے نہیں تھکتے۔ برصغیر کے مشہور شاعر اور فلسفی علامہ اقبال نے بھی اپنی شعری اور نثری تخلیقات میں مختلف مقامات پر نطشے کے اَفکار پر بحث کی ہے لیکن کیا وہ اُن سے متاثر تھے! پاکستان کے ممتاز ماہرِ اقبالیات خرم علی شفیق نے اپنی ایک کتاب میں، جو عنقریب اقبال اکیڈمی کی جانب سے شائع ہونے والی ہے، اِس تاثر کو رَد کرنے کی کوشش کی ہے کہ علامہ نطشے کے اَفکار سے متاثر تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ دونوں کے اَفکار میں مماثلتیں تو ہو سکتی ہیں لیکن علامہ اپنی زندگی ہی میں قطعیت کے ساتھ اِس تاثر کی تردید کرتے رہے کہ اُن کا انسانِ کامل یا مردِ مومن کا تصور نطشے سے مستعار لیا ہوا ہے۔