1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نفسياتی امراض ميں مبتلا شامی پناہ گزين مدد کے منتظر

عاصم سليم1 مارچ 2016

اندازوں کے مطابق لبنان ميں پناہ لينے والے تقريباً بيس فيصد شامی پناہ گزين مختلف اقسام کے نفسياتی امراض ميں مبتلا ہيں اور اگر انہيں بر وقت علاج کی سہوليات فراہم نہ کی گئيں، تو اس کے خطے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1I4ul
تصویر: DW/D. Tosidis

شامی شہری فاطمہ کی عمر اُس وقت قريب بارہ برس تھی، جب جنگجوؤں نے اُس کے گھر ميں گُھس کر اُسے ہراساں کيا،مارا پيٹا اور اُس کے ساتھ جنسی زيادتی کی کوشش کی۔ وہ سن 2011 ميں ہی اپنا وطن ترک کر کے لبنان چلی گئی تھی تاہم اُس کی مشکلات نے اُس کا پيچھا نہ چھوڑا۔ در اصل حملے کے چار ماہ بعد ہی فاطمہ ميں ’پوسٹ ٹراميٹک اسٹريس ڈس آرڈر‘ يا کسی گہرے صدمے کے بعد شديد ذہنی دباؤ کی سی کيفيت کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔

ايک لبنانی نفسياتی ماہر شاريل غزل کہتی ہيں، ’’اُس کے ذہنی مرض ميں مبتلا ہونے کی تصديق اُسی وقت ہو گئی تھی جب اُس نے سڑکوں پر چيخنا چلانا اور خود کو جسمانی نقصان پہنچانا شروع کيا۔‘‘ غزل کے بقول فاطمہ اکثر خواب ميں يہی ديکھتی کہ کوئی اُسے جنسی زيادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اِس کيفيت کی وجہ سے وہ رات ميں اپنے سرہانے چاقو رکھ کر جاگتی رہتی اور دن ميں سويا کرتی تھی۔

شام ميں مارچ 2011ء سے جاری خانہ جنگی کے سبب ايک ملين سے زائد شامی مہاجرين لبنان ميں پناہ لے چکے ہيں جس کی وجہ سے اِس چھوٹے سے ملک ميں طبی سہوليات فراہم کرنے والے ادارے شديد دباؤ کا شکار ہيں۔ اندازوں کے مطابق شامی پناہ گزينوں ميں سے بيس فيصد ذہنی امراض ميں مبتلا ہو سکتے ہيں ليکن لبنان ميں ذہنی امراض کے علاج کے ليے اکثريتی طور پر نجی اداروں کی موجودگی اور نفسياتی ماہرين کی قلت کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر متاثرہ شامی مہاجرين کو علاج کی سہولت ميسر نہيں ہو سکی ہے۔

شام ميں مارچ 2011ء سے جاری خانہ جنگی کے سبب ايک ملين سے زائد شامی مہاجرين لبنان ميں پناہ لے چکے ہيں
شام ميں مارچ 2011ء سے جاری خانہ جنگی کے سبب ايک ملين سے زائد شامی مہاجرين لبنان ميں پناہ لے چکے ہيںتصویر: DW/M. Jay

لبنانی وزارت صحت ميں ذہنی امراض سے متعلق محکمے کے سربراہ ربيع چامے کے مطابق اِس وقت شامی پناہ گزينوں کو دستياب طبی سہوليات ناکافی ہيں اور متعلقہ ادارے کافی دباؤ کا شکار ہيں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق اِس وقت لبنان ميں موجود شامی مہاجرين ميں سے بيس فيصد يعنی لگ بھگ دو لاکھ مختلف نوعيت کے نفسياتی يا ذہنی امراض ميں مبتلا ہو سکتے ہيں۔

ماہرين نے خبردار کيا ہے کہ ذہنی اور نفسياتی امراض ميں مبتلا افراد کو طبی سہوليات کی عدم دستيابی، لبنان اور شام دونوں ہی ملکوں کے ليے سماجی اور اقتصادی لحاظ سے منفی ثابت ہو گی۔ ايک علاقائی نفسياتی ماہر محمد الشازلی کے بقول اگر بچوں اور نابالغوں ميں نفسياتی امراض کا علاج نہ کرايا گيا، تو ايک پوری کی پوری نسل ضائع ہو سکتی ہے، جو طويل المدتی بنيادوں پر جنگ کے بعد کے شامی معاشرے کے ليے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔