1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نندی پور کا منصوبہ ’نا اہلی اور بدعنوانی کا ملغوبہ‘

تنویر شہزاد، لاہور14 ستمبر 2015

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے ایک متنازعہ منصوبے نندی پور پاور پراجیکٹ کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GWNS
ضلع گوجرنوالہ کے علاقے نندی پور میں 2008 ء میں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ 2011 ء کے اوائل میں مکمل ہونا تھاتصویر: DGPR

نندی پور پاور پراجیکٹ کے منصوبے کو موجودہ حکومت کے ایک میگا اسکینڈل کا نام دیتے ہوئے بعض اپوزیشن لیڈروں نے شریف برادران کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے قومی اسبلی میں تحریک التوا بھی جمع کرا دی ہے۔ ادھر وزیر اعظم نواز شریف نے اس منصوبے میں بدعنوانیوں کے مرتکب افراد کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کرانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

لاہور سے تقریبا سو کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع گوجرنوالہ کے علاقے نندی پور میں 2008 ء میں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ 2011 ء کے اوائل میں مکمل ہونا تھا۔ لیکن اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس منصوبے کی کل لاگت 23 ارب روپے تھی جو کہ اب ابتدائی لاگت کے تین گنا سے بھی زیادہ ہو کر تقریبا 83 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اس منصوبے کی لاگت 58 ارب روپے بتا رہے ہیں۔ اس منصوبے کے ذریعے 425 میگا واٹ بجلی حاصل ہونا تھی۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے واپڈا کے سابق چئیرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) ذوالفقار علی خان نے بتایا کہ 1994ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی توانائی کی پالیسی کی رو سے پبلک سیکٹر میں کوئی تھرمل پاور پلانٹ نہیں لگایا جا سکتا تھا، ’’2002ء میں، میں نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ حکومت کو نجی اداروں سے مہنگی تھرمل بجلی خریدنے کی بجائے اس پالیسی میں ترمیم کر کے سرکاری شعبے کو تیل سے بجلی بنانے کے کارخانے لگانے کی اجازت دینی چاہیے۔ اس پر چیچو کی ملیاں اور نندی پور کے مقام پر بجلی کے کارخانے لگانے کی اجازت دے دی گئی۔‘‘

نندی پور کے منصوبے کے لیے سب سے کم بولی دینے والی قطر کی کمپنی نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد اس کا ٹھیکہ دوسرے نمبر پر آنے والی ایک چینی کمپنی ڈونگ فانگ کو دے دیا گیا تھا۔ یاد رہے یہ وہی کمپنی ہے جس نے پاکستان کو ٹرین کے ایسے انجن بیچ دیے تھے جن کا سائز پاکستان ریلوے کے پلیٹ فارمز سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

وفاقی حکومت کی طرف سے اس منصوبے کے حوالے سے ملنے والے ایک اجازت نامے کی وجہ سے پہلی تاخیر ہوئی۔ نندی پور پراجیکٹ کے لیے باہر سے لایا جانے والا سامان کراچی پورٹ پر پانچ سال پڑا رہا، پیپلز پارٹی کے دور میں وزارت قانون نے اس سامان کی ریلیز کی منظوری دینا تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پیپلز پارٹی نہیں چاہتی تھی کہ کسی اور کے منصوبے کی تکمیل ہونے سے کریڈٹ کسی اور کے حصے میں چلا جائے۔ اس ساری صورتحال پر چینی کمپنی کام چھوڑ کر چلی گئی اور اس نے تاخیر کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے ایک خطیر رقم کا مطالبہ کر دیا۔

Pakistan Stromerzeugung Korruption
مبصرین کے مطابق نندی پور پاور پراجیکٹ کے ایم ڈی محمد محمود کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہےتصویر: DGPR

نواز شریف کے برسر اقتدار آنے کے بعد خواجہ آصف کو پانی اور بجلی کی وزارت سونپی گئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ کے حوالے سے غیر اعلانیہ طور پر تمام اختیارات وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے چینی کمپنی سے مذاکرات کیے، تعمیراتی کام دوبارہ شروع کروایا اور ایک مہنگی اشتہاری مہم کے ساتھ اس منصوبے کے مکمل ہونے والے ایک حصے کا افتتاح دھوم دھام سے وزیر اعظم کے ہاتھوں کروایا۔ اس موقع پر اس منصوبے کے لیے جانفشانی سے خدمات سرانجام دینے والے اس منصوبے کے سربراہ محمد محمود کے لیے شہباز شریف نے وزیراعظم سے سفارش کی کہ انہیں اعلیٰ اعزاز سے نوازا جائے۔

چند روز چلنے کے بعد مکمل کیے جانے والے نندی پور پاور پراجیکٹ کے مکمل کیے جانے والے حصے نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا اور معلوم ہوا کہ اس پراجیکٹ کو فرنس آئل پر چلانے کے لیے تیل کو فلٹر کرنے والے آلات لگائے جانے کی ضرورت ہے، جن کے آنے میں نہ صرف کئی مہینے لگ سکتے ہیں بلکہ اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ نندی پور پاور پلانٹ کو ڈیزل سے چلانے کی کوشش بھی کی گئی، جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ اب اس منصوبے سے گیس کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔

اس منصوبے پر کام کرنے والے ایک انجینئر نے اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس منصوبے کے مشیروں اور تعمیراتی کمپنی کے حکام کی مرضی کے خلاف شہباز شریف نے تجرباتی طور پر چلانے کے لیے مناسب وقت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ میڈیا کو ٹائم دے چکے تھے اور اس کی جلد تکمیل کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عجلت میں مکمل کیے جانے کی وجہ سے کام کی کوالٹی بھی متاثر ہوئی اور مسائل میں اضافہ بھی ہوا۔

Pakistan Stromerzeugung Korruption Ministerpräsident Punjab Shehbaz Sharif
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس منصوبے پر میڈیا بریفنگ دیتے ہوئےتصویر: DGPR

پاکستان میں انرجی کے امور کے ایک ماہر اور انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ سینئر صحافی احمد فراز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں، ’’ شہباز شریف پاور جنریشن کے منصوبوں کے کام سے شناسا نہیں تھے، ان کی وزارت پانی و بجلی میں بے جا مداخلت سے رد عمل پیدا ہوا اور اس منصوبے کو نقصان پہنچا۔ شہباز شریف نے اس تکنیکی منصوبے کی ذمہ داری کسی انجنیئر کو سونپنے کی بجائے ڈی ایم جی گروپ کے ایک ایسے افسر کے حوالے کر دی، جن کے پاس تھرمل جنریشن کے منصوبوں کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔‘‘

احمد فراز نے مزید کہا کہ اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے 30 انجنئیرز کو خصوصی تربیت کے لیے چین بھیجا گیا تھا۔ جنہوں نے واپس آ کر اس منصوبے پر کام کرنے کی بجائے اپنے اپنے علاقوں میں کام کرنے کو ترجیح دی جبکہ جن چند تربیت یافتہ انجنئیرز کی پوسٹنگ نندی پور کی گئی وہ بھی عدالت سے حکم امتنائی لے آئے۔

سابق چئیرمین واپڈا طارق حمید نے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’ لگتا یہ ہے کہ اس کی تکمیل پر اس کی کارکردگی کی تسلی کیے بغیر اسے تعمیراتی کمپنی سے حاصل کر لیا گیا۔‘‘ ان کے نزدیک اس مئسلے کا حل یہ ہے کہ اس منصوبے کو بنانے والی کمپنی سے ہی کہا جائے کہ وہ اس کے کامیاب آپریشن کو یقینی بنا کر دے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کا تجربہ رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد پچھلے دس سالوں میں ریٹائر ہو چکی ہے۔ اب یہ منصوبے اناڑیوں کے حوالے ہیں اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لگتا یہی ہے کہ اس منصوبے کے ایم ڈی محﺍد محمود کو قربانی کا بکرا بنا کر نندی پور پاور پلانٹ کے حوالے سے اصل ذمہ دار با اثر لوگ بچ جائیں گے۔

واپڈا کے سابق چئیرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) ذوالفقار علی خان کہتے ہیں کہ صرف دو دن کی دیانتدارانہ تحقیقات کے ساتھ سرکاری وسائل کے ضیاع کا باعث بننے والے لوگوں کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو سخت سزا دے کر عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے، ’’مسلم لیگ نون کی حکومت اندھیرے دور کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکی لیکن وہ عمدہ میڈیا مینجمنٹ کے ساتھ اپنا کام چلا رہی ہے‘‘۔