1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف کی رحم کی اپیلیں مسترد کرنے کی ’غیر ضروری‘ سفارش

شکور رحیم، اسلام آباد19 نومبر 2015

پاکستانی وزیر اعظم نے صدر مملکت سے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے اُن چار مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد کرنے کی سفارش کی ہے، جو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث تھے۔

https://p.dw.com/p/1H8ym
Taliban Angreifer Schule in Peschawar
یہ اُن حملہ آوروں کا گروپ فوٹو ہے، جو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث تھےتصویر: Reuters/Pakistan Taliban

فوجی عدالت نے ان چاروں افراد کو سولہ دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملوں کے الزام میں موت کی سزائیں سنائی تھیں اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان سزاؤں کی توثیق کی تھی۔

جمعرات کے روز وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سانحہٴ پشاور کے بعد پاکستان تبدیل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں پر حملہ کر کے انہیں ظالمانہ اور بے رحمانہ طریقے سے قتل کرنے والے کسی رحم کے مستحق نہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے بعد پوری قوم شدت پسندی کے خلاف متحد ہو گئی تھی جبکہ اس واقعے کے بعد پارلیمنٹ نے ایسے شدت پسندوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچانے کی غرض سے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ان عدالتوں کو بااختیار بنایا۔ ان عدالتوں کا مقصد بھیانک جرائم میں ملوث مجرموں کو مختصر عرصے میں کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ انہون نے کہاکہ ان چاروں دہشت گردوں کو ملنے والی سزائیں پوری قوم کی خواہش ہیں۔

معروف وکیل اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے صدر کو کی گئی سفارش ایک آئینی تقاضا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی آئین کے مطابق ایگزیکٹیو اتھارٹی وزیراعظم اور کابینہ کے پاس ہے جب کہ صدر کا عہدہ رسمی ہے، اس لیے صدر کو کُلی طور پر یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی مجرم کی رحم کی اپیل کو مسترد یا منظور کر لیں‘۔

Pakistan Trauer nach Taliban-Überfall auf Schule in Peshawar 16.12.2014
آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے پورے ملک کو ہِلا کر رکھ دیا تھا اور اِس واقعے کے بعد پوری قوم شدت پسندی کے خلاف متحد ہو گئی تھیتصویر: Reuters/Z. Bensemra

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے کے الزام میں چھ افراد کو سزائے موت سنائی تھی۔ جن ملزمان کو سزا سنائی گئی، ان میں توحید والجہاد گروپ سے تعلق رکھنے والے شدت پسند حضرت علی، مجیب ا لرحمن، سبیل عرف یحیٰی، مولوی عبدالسلام، عتیق الرحمان عرف عثمان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تاج محمد عرف رضوان شامل ہیں جبکہ ایک ملزم کفایت اللہ عرف کیف قاری کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اگست میں ان سزاؤں کی توثیق کی تھی۔ اس موقع پر آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ملزمان کا شفاف ٹرائل کیا گیا ہے اور وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کر سکتے ہیں۔

تاہم ابھی تک اُن ملزمان کے نام معلوم نہیں ہو سکے ہیں، جنہوں نے صدر سے معافی کی اپیل کی ہے۔ اسی طرح یہ بھی پتہ نہیں چل سکا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ان کے مقدمے کی پیروی کس نے کی۔

Raheel Sharif
آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے ہی ان افراد کو سنائی جانے والی موت کی سزاؤں کی توثیق کر چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

فوجی عدالتوں اور سول عدالتوں میں وکیل صفائی کے طور پر پیشں ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ محمد انعام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے صدر کو کی گئی سفارش غیر ضروری ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’ماضی میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں، جہاں وزیر اعظم نے کسی کی رحم کی اپیل کے حوالے سے صدر کو کوئی سفارش کی ہو۔کیونکہ آئین کے آرٹیکل پینتالیس کے تحت یہ صدر کی اپنی صوابدید پر ہے کہ وہ کسی کی اپیل منظور یا مسترد کریں تو میرے خیال میں صدر بھی اسی ملک میں رہتے ہیں اور انہیں تمام حالات کا بہتر اداراک ہے، انہیں اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی سفارش کی ضرورت نہیں تھی‘۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے رکھی ہے۔ آئین میں کی گئی ترمیم کے تحت یہ عدالتیں فروری دو ہزار سترہ کے بعد ختم ہو جائیں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید