1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مصالحت کی کوششیں

امتیاز گل ، اسلام آباد5 مارچ 2009

امریکی تحقیقائی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ رابرٹ مولر ایک ایسے موقعے پر پاکستان آئے جبکہ شریف برادران کی نا اہلیت اور پنجاب میں گورنر راج کے باعث سیاسی صورتحال خاصی کشیدہ ہے۔

https://p.dw.com/p/H68q
پچھلے سال انتخابات کے بعد مشرف حکومت کے خلاف اتحاد، مشرف کے بعد ایک بار پھر روایتی محاذ آرائی مصروف ہےتصویر: AP

شریف برادران نے ماضی میں متعدد مرتبہ وعدہ خلافی کے باعث صدر آصف علی زرداری کو ناقابل اعتبار قرار دے رکھا ہے اور شہباز شریف نے جمعرات کے روز بھی واضح کیا کہ صدر زرداری پر اب کوئی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور اسی لئے وزیر اعظم گیلانی کو حالات کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کچھ یوں تبصرہ کیا:’’نواز لیگ کا بنیادی ٹارگٹ صدر زرداری ہیں شہباز شریف نے جو تجویز دی ہے کہ وزیر اعظم آگے بڑھ کر نظام کو بچانے کی کوئی کوشش کریں یہ بنیادی طور پر وہ طریقہ کار جو کہ نواز لیگ استعمال کر رہی ہے اس امید پر کہ پیپلز پارٹی میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور صدر زردای کے خلاف عدم اعتماد ہو جائے گا۔‘‘

دوسری طرف مسلم لیگ قائد اعظم کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین نے بھی سسٹم بچانے کی غرض سے دونوں بڑی جماعتوں سے مفاہمت کی راہ اپنانے کی اپیل کی ہے۔’’بین الاقوامی طور پر ہماری ساکھ خراب ہوئی ہے اور پاکستان کے اندر بھی اکٹھے مل کر چلنا چاہئے میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ سسٹم کو بچانے کا یہی وقت ہے ورنہ ان کی نالائقی کی وجہ سے سسٹم لپیٹا جائے گا اور حکومت کو چاہئے کہ گورنر رول واپس لے اور ہارس ٹریڈنگ نہ کریں اور سب کے مینڈیٹ کا احترام کریں۔‘‘

مبصرین کے خیال میں امریکی حکام کی اسلام آباد آمد اور اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن کی مصالحتی کوششوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال واشنٹگن اور لندن میں بھی باعث تشویش ہے اور بڑی قوتوں کی بھی خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی کو مزید بڑھنے سے بچایا جائے اور وکلاء کے 16 مارچ کے لئے طے شدہ اسلام آباد میں دھرنے سے پہلے ہی شریف برادران اور صدر زرداری کے درمیان مفاہمت کی کوئی راہ نکالی جائے۔