1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل انعام یافتہ ایرانی خاتون وکیل شیریں عبادی ڈوئچے ویلے میں

14 جولائی 2009

سن 2003ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی ایرانی خاتون وکیل شیریں عبادی پیر کے روز ڈوئچے ویلے بون آئیں، جہاں اُنہوں نے ایک پریس کانفرنس میں ایران میں جمہوری تبدیلی کے لئے کوشاں مظاہرین کی حمایت کی۔

https://p.dw.com/p/Ip0e
نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی ڈوئچے ویلے میںتصویر: DW

شیریں عبادی برسوں سے اپنے ملک میں حقوقِ انسانی کا علم بلند کئے ہوئے ہیں۔ وہ وَسط جون میں منعقدہ متنازعہ صدارتی انتخابات سے ایک روز قبل اسپین میں ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ایران سے روانہ ہوئی تھیں اور تب سے بیرونِ ملک سے ہی ایران میں پیش آنے والے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

شیریں عبادی دیکھنے میں زیادہ بڑی نظر نہیں آتیں لیکن اُن کے اندر بے پناہ توانائی ہے اور اُن کا موقف بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ وہ پُر زور انداز میں یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ یورپ کو ایران میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے زیادہ بھرپور کوششیں کرنی چاہییں۔ وہ کہتی ہیں کہ برسوں سے ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تو بات چیت چل رہی ہے لیکن وہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو سرے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں:’’انسان بجا طور پر سوال کر سکتا ہے کہ کیا یورپی ممالک کی نظر میں محض یورپی باشندوں کی سلامتی اہمیت رکھتی ہے۔ کیا اِن ممالک کو ایرانیوں کی سلامتی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے؟‘‘

کل ڈوئچے ویلے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیریں عبادی نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی واضح طور پر مخالفت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس کا نقصان صرف اور صرف عام عوام کو ہو گا۔ اِس کے برعکس شیریں عبادی نے سیاسی پابندیوں کی وکالت کرتے ہوئے کہا: ’’سیاسی پابندیوں سے میری مراد یہ ہے کہ یورپی ممالک اپنے سفیر واپس بلا لیں۔ سفارتی تعلقات کسی بھی صورت میں منقطع نہیں کئے جانے چاہییں تاہم سفارتخانوں کی اہمیت کم کر کے اُنہیں قونصل خانوں کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اِس طرح کے اقدام کا عوام کو کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن سیاسی قیادت کو پتہ چل جائے گا کہ وہ دنیا میں الگ تھلگ رہ گئی ہے۔‘‘

Shirin Ebadi zu einem Pressegespräch ins Bonner Funkhaus Deutsche Welle
شیریں عبادی ڈوئچے ویلے میں صحافیوں سے گفتگو کے دورانتصویر: DW

شیریں عبادی نے ایرانی مزاحمتی تحریک میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے اہم کردار پر زور دیا اور اِس سلسلے میں ڈوئچے ویلے کے کردار کو سراہا۔ ساتھ ہی اُنہوں نے صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ تہران حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اپنی توجہ اقتصادی روابط پر بھی مرکوز کریں:’’نوکیا یا پھر زی مینز جیسی فرموں سے پوچھیں کہ اُنہوں نے ایسی ٹیکنالوجی کیوں فراہم کی ہے، جس کے ذریعے انٹرنیٹ اور موبائیل رابطوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی تکنیکی نظاموں کی مدد سے ایران میں عوام کو دبایا جا رہا ہے۔

شیریں عبادی کو یقین ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران اب تک کے اندازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں انسان موت کا شکار ہوئے۔ جو گرفتار ہوئے، اُنہیں الگ تھلگ رکھا جا رہا ہے اور دوستوں یا وکلاء سے بھی اُن کا رابطہ نہیں ہونے دیا جا رہا۔

عبادی کے بقول حکومتی اقدامات نہ تو ملکی آئین سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی اسلام سے اور یہی وجہ ہے کہ اب کئی سرکردہ علماء بھی حکومتی اقدامات اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں:’’عوام کے خلاف قیادت کی طرف سے طاقت کا استعمال اتنا زیادہ تھا کہ خود علماء کا طبقہ بھی اب اُس پر احتجاج کر رہا ہے۔ علماء کے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت اپنا جواز کھو بیٹھی ہے۔‘‘

شیریں عبادی کے ایماء پر اقوامِ متحدہ کا ادارہ پہلے ہی ایک وفد تشکیل دے چکا ہے۔ یہ غیر جانبدار مبصرین اُن واقعات کے اصل حقائق منظرِ عام پر لانے کی کوشش کریں گے، جو وَسط جون میں منعقدہ متنازعہ انتخابات کے بعد پیش آئے۔ البتہ ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا اِس وفد کو ایران جانے کی بھی اجازت ملے گی یا نہیں۔ یہی سوال خود شیریں عبادی کے لئے بھی پوچھا جا سکتا ہے، جو تمام تر خطرات کے باوجود اپنا اصل مقام تہران ہی میں دیکھتی ہیں اور وہیں واپس لوٹنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں:وہیں میرے شوہر ہیں، وہیں میرا گھر ہے اور وہیں میرا کام ہے۔

رپورٹ : ماتھیاس فان ہائن / امجد علی

ادارت : افسر اعوان