1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لودھراں کا فیصلہ بھی پی ٹی آئی کے حق میں

تنویر شہزاد، لاہور 26 اگست 2015

پاکستانی شہر ملتان میں انتخابی عذر داریوں کی سماعت کرنے والے ایک الیکشن ٹریبونل نے جنوبی پنجاب کے علاقے لودھراں میں قومی اسمبلی کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے این اے 154 میں دوبارہ انتخاب کا حکم دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GLn9
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal

اس حلقے میں 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کوایک آزاد امیدوار صدیق بلوچ نے شکست دی تھی۔ صدیق بلوچ بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ نون میں شامل ہو گئے تھے۔ انتخابی ٹریبونل نے اثاثے ظاہر نہ کرنے اور ڈگری جعلی ہونے کی وجہ سے صدیق بلوچ کے آئندہ الیکشن لڑنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

یاد رہے کہ لودھراں کا یہ انتخابی حلقہ ان چار حلقوں میں شامل تھا جنہیں کھولنے کا مطالبہ پی ٹی آئی کرتی رہی ہے۔ ان حلقوں کا ذکر احتجاجی دھرنوں کے دوران بھی میں بار بار کیا جاتا رہا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق حالیہ فیصلے کے بعد چار میں سے تین حلقوں میں انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے مؤقف کی تائید ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے حلقوں میں بھی الیکشن ٹریبونل انتخابات کالعدم قرار دے چکے ہیں۔

پاکستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی اس صورتحال نے ایک ہلچل سی پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کے سینیئر تجزیہ کار اور جناح گروپ آف نیوز پیپرز کے گروپ ایڈیٹر محمود شام نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اڑھائی سال کی طویل قانونی جدوجہد کے بعد سامنے آنے والے اس فیصلے نے پاکستان کے انتخابی نظام پر عوام کا اعتماد مزید مجروح ہو گیا ہے۔ اب پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ایکشن کمیشن کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ انتخابی عمل کو کس طرح شفاف بنا کر اس پر عوامی اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔

محمود شام امید کرتے ہیں کہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پی ٹی آئی کی جدوجہد کے باعث پاکستان کے انتخابی نظام میں ضرور بہتری آئے گی لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخاب کے دن رونما ہونے والی بے قاعدگیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پورے انتخابی عمل کو شفاف بنایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ان کے بقول سیاسی جماعتوں کو درست ڈگری والے امیدواروں کو سامنے لانا ہوگا، اپنے رشتے داروں کو نوازنے کی بجائے سیاسی کارکنوں کو اہمیت دینا ہوگی، انتخابات کو پیسے کا کھیل بنانے کی بجائے انتخابی ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنا ہوگی اور سیاسی جماعتوں کو گراس روٹ لیول پر منظم کرنا ہوگا۔

محمود شام کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ بے ضابطگیوں کا ارتکاب کرکے عوامی ووٹوں کی بے حرمتی کا باعث بننے والے لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ٹریبونل کے نسبتاﹰ چھوٹے ججوں نے اپنے حالیہ فیصلوں کے ذریعے جن انتخابی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے، ان کے منظر عام کے آنے کے بعد اب عدالتی کمیشن کے انتخابی دھاندلی کے حوالے سے دیے جانے والے فیصلے کو حیرت سے ہی دیکھا جائے گا۔

گزشتہ ہفتے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے حلقے میں بھی الیکشن ٹریبونل نے انتخاب کالعدم قرار دے دیا تھا
گزشتہ ہفتے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے حلقے میں بھی الیکشن ٹریبونل نے انتخاب کالعدم قرار دے دیا تھاتصویر: DW/T. Shahzad

انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے حالیہ فیصلوں کی بدولت پاکستان الیکشن کمیشن پر دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے پی ٹی آئی کے حق میں آنے والے فیصلوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ایک روز قبل پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایاز صادق کے انتخابی حلقے کے نتیجے کو کالعدم قرار دینے والے ٹریبونل کے جج پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے نون لیگ کا ٹکٹ چاہتے تھے جس سے انکار کر دیا گیا تھا اس لیے انہیں پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ انتخابی ٹریبونل کے جج جسٹس (ر) کاظم ملک نے رانا ثناء اللہ کے بیانات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول اگر رانا ثناء اپنے الزامات ثابت کر دیں تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔