1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نو افراد کا بھیانک قتل اور جاپانی معاشرہ

شمشیر حیدر Julian Ryall (Tokyo)
1 نومبر 2017

جاپان میں ایک ’سیریل کِلر‘ ایسے افراد کا شکار کرتا تھا جو تنہائی کا شکار تھے اور خودکشی کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جاپان میں لوگ معاشرے سے کس طرح کٹ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ms5R
Japan Leichenfunde in Tokio
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Kawata

حالیہ دنوں میں جاپان میں ایک ستائیس سالہ شخص کے گھر سے نو افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا واقعہ خبروں کی زینت بنا رہا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تجزیہ نگار یہ پوچھتے دکھائی دیے کہ جاپان جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں ایسا بھیانک جرم کیسے رونما ہو سکتا ہے۔

قندیل بلوچ کا قتل اور پاکستانی معاشرے کا المیہ

گجرات فسادات کے 10 سال

ابھی تک اس بات کا کوئی واضح جواب نہیں ملا کہ سیریل کِلر تاکاہیرو شیرائیشی نے کس طرح آٹھ خواتین اور ایک مرد کو اپنے ایک کمرے کے فلیٹ میں جانے کے لیے قائل کر لیا، جہاں اس نے انہیں قتل کرنے کے بعد غسل خانے میں ان کی لاشوں کو آری کی مدد سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا۔

ستّر افراد کے قتل میں مطلوب پاکستانی عدالت میں پیش

سلسلہ وار قتل کی ان وارداتوں کے بعد اگرچہ مبصرین بحیثیت مجموعی جاپانی معاشرے کی صورت حال پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس واقعے کے انتہائی بھیانک ہونے کے باوجود جاپانی معاشرے میں ’اجتماعی قتل‘ کیے جانے کی شرح دیگر کئی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ جاپان میں ہر دس لاکھ نفوس میں سے سالانہ بنیادوں پر 3.97 قتل ہوتے ہیں اور عالمی سطح پر قتل کی شرح کے حوالے سے جاپان دنیا میں ایک سو گیارہویں نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا تینتالیسویں نمبر پر ہے جہاں فی ملین 42.01 افراد سالانہ قتل ہوتے ہیں۔

سلسلہ وار قتل کی وارداتیں

شیرائیشی کے فلیٹ سے نو افراد کی لاشیں ملنے کے بعد ملکی میڈیا میں اسے ’سیریل کِلر‘ کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ وہ ٹوکیو کے ریڈ لائٹ ایریا میں جسم فروشی کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنے کے کاروبار سے منسلک تھا۔ جس فلیٹ سے مقتول افراد کی لاشیں ملیں، شیرائیشی نے محض چند ماہ قبل بائیس اگست کے روز ہی اس فلیٹ میں رہائش اختیار کی تھی اور بظاہر اس کے فوری بعد ہی اس نے قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

جاپانی تفتیش کاروں کو تحقیقات کے دوران شیرائیشی نے یہ بھی بتایا کہ وہ قتل کرنے کے لیے لوگوں کا انتخاب سوشل میڈیا کے ذریعے کرتا تھا اور ان میں بھی وہ ایسے افراد کو منتخب کرتا تھا جو تنہائی کا شکار تھے اور سوشل میڈیا پر خودکشی کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے تھے۔

اس کے ہاتھوں قتل ہونے والی ایک خاتون کے بھائی نے پولیس میں اپنی بہن کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی جس کی تلاش کے دوران پولیس نے سی سی ٹی وی میں اس خاتون کو شیرائیشی کی گاڑی میں سوار ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد ہی پولیس اس کے گھر پہنچنے میں  کامیاب ہوئی۔ پولیس کے مطابق اس خاتون نے اپنی گمشدگی سے کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر خودکشی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ ایسا کرنا چاہتی ہے لیکن اسے تنہا مرنے سے خوف آتا ہے۔ اس کے جواب میں شیرائیشی نے لکھا کہ وہ اس کے ساتھ خودکشی کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن پولیس کو تفتیش کے دوران شیرائیشی نے یہ بھی بتایا کہ اس نے کچھ خواتین کو قتل کرنے سے قبل جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا اور ان کے پیسے بھی چرائے۔

معاشرتی تنہائی کا احساس

پولیس نے جب اس کے ایک کمرے کے فلیٹ کی تلاشی لی تو وہاں نو افراد کی باقیات ملیں جنہیں کاٹنے کے بعد اس نے فریج میں رکھا تھا جب کہ ان کے دیگر اعضا کو اس نے گلی میں رکھے بڑے کوڑے دان میں ڈال دیا تھا۔ پولیس اب ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے ان لاشوں کی شناخت کی کوشش کر رہی ہے تاہم حکام کے مطابق سبھی افراد کی شناخت کرنا ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔

جاپان یونیورسٹی میں میڈیا اور کمیونیکیشن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ماکوتو واٹانبے نے ڈی ڈبلیو سے اپنی گفتگو میں کہا،’’طرح طرح کی باتیں سامنے آ رہی ہیں لیکن در اصل قاتل کے دماغ میں کیا چل رہا تھا؟ یہ بتانا ناممکن ہے۔ جاپانی معاشرے میں بالمشافہ گفتگو اور رابطے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، سماجی روابط کی ویب سائٹس کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے رابطے میں رہا جاتا ہے۔ رابطوں کی سہولیات بڑھنے کے بعد مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ معاشرتی کٹاؤ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔‘‘

اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ مقتول کیوں شیرائیشی پر بھروسہ کر کے اس کے گھر تک چلے گئے، پروفیسر واٹانبے کا کہنا تھا، ’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ قتل ہونے والے افراد کو اس وقت یہ جان کر طمانیت کا احساس ہوا ہو گا کہ وہ بھی ان ہی کی طرح تنہائی کا شکار ہے۔ لیکن اس (شیرائیشی) نے ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ذبح کر دیا جو کہ انتہائی خوفناک بات ہے۔‘‘

 کیا یہ بچی ایک عام انسان جیسی زندگی گزار پائے گی ؟

’جرم ایک لمحے کا، سزا آخری سانس تک‘