1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیوزی لینڈ کان کن: بچنے کے امکانات مزید کم

23 نومبر 2010

پائیک دریا کول مائن کے اندر انتیس کان کنوں کی زندگیوں کے بارے میں حکام نے مایرسی کا اظہار کھل کر کرنا شروع کردیا ہے۔ امدای عمل ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے۔ سوراخ کرنے کے عمل میں سخت چٹانیں حائل ہیں۔

https://p.dw.com/p/QG7i
کوئلے کی کان میں جاتا کان کنتصویر: picture-alliance/dpa

نیوزی لینڈ کی کان میں پھنسے ہوئےکان کنوں کے لئے امدادی عمل بدستور معطل ہے۔ کان کے اندر زہریلی گیسوں میتھین اور کاربن مونو آکسائڈ کی موجودگی بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کی سطح میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے امدادی ٹیم حکام کے گرین سگنل کی منتظر ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ کان کنوں کے زندہ بچنے کا امکان بہت کم رہ گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ جب کان میں دھماکہ ہوا ہو گا تو اس کے بعد گرنے والے ملبے میں سے پتھر بندوق کی گولیوں کی طرح پھیلے ہوں گے اور ان کی زد میں جو بھی کان کن آیا ہو گا وہ لقمہٴ اجل بن گیا ہو گا۔

انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ کان کے طویل راستے میں زہریلی گیسوں کی دبیز تہہ موجود ہے اور یہ امدادی ٹیم کے سولہ اراکین کی جانوں کے لئے خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔ امدادی عمل اب شروع ہوا بھی تو بدھ ہی کے روز ہو سکتا ہے۔

کان کے اندر سوراخ کرنےکا عمل بھی جاری ہے۔ اب تک سوراخ 152 میٹر کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے۔ انتہائی سخت چٹان کی وجہ سے سوراخ کا عمل مزید نیچے نہیں جا سکا اب یہ کل مکمل کیا جائے گا۔ اس کے بعد ہی کان کنوں سے کسی رابطے کا امکان ہے۔ اس سوراخ کا قطر چھ انچ کا ہے۔ سوراخ کی تکمیل کے بعد کیمرے اور دوسرے ٹیکنیکل سامان کو نیچے پہنچایا جائے گا۔

China Explosion Gas Kohle Mine
کوئلے کی کانتصویر: AP

محصور کان کنوں کے خاندان پہلے ہی بے یقینی کے حصار میں ہیں۔ یہ لوگ امدادی عمل کے شروع نہ ہونے کی وجہ سے اب دعاؤں کا سہارا لے رہے ہیں۔ کان کے قریبی شہر گرے ماؤتھ کے گرجا گھروں میں بھی دعائیہ عبادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کان میں دبے ہوئے کان کنوں کے اہل خانہ نے دو تین روز قبل کان کے علاقے کا دورہ کیا تھا اور ان کی اشکبار آنکھیں واضح تھیں۔ اس کے باوجود تمام افراد یقین رکھتے تھے کہ ان کے عزیز زندہ باہر آ جائیں گے۔

پائیک دریا کول مائن میں دھماکہ جمعہ کے روز ہوا تھا۔ گرتے ہوئے ملبے نے واپسی کا راستہ بند کردیا تھا، جس کے نتیجے میں کان کن پھنس گئے۔ جو پانچ لوگ پیچھے تھے وہ باہر آنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پہلی بار کان کے منتظمین نے پھنسے ہوئے کان کنوں کی ہلاکت کا اشارہ دے دیا ہے۔ منتظمین ایسے بیان کو حقیقت سے عبارت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ماہرین انتظامیہ کو مشور دے رہے ہیں کہ کسی طرح زہریلی گیسوں کو جلا دیا جائے۔ اس عمل میں جو خطرہ موجود ہے اس باعث انتظامیہ اس پر عمل پیرا ہونے سے گریز کر رہی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امدادی عمل کا آغاز کرنے سے ہی اصل معلومات تک پہنچا جا سکے گا۔ مقامی میئر ٹونی کاک شُورن نے بھی کان کنوں کو بچانے کی کوششوں میں تاخیر سے تھک جانے کا عندیہ دیا ہے۔

کان کنوں کی امکانی زندگی کے حوالے سے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ تازہ ہوا کسی سوراخ سے کان کے اندر پہنچ رہی ہو اور اس کی وجہ سے کان کن زندہ ہوں۔ ان کان کنوں سے دھماکے کے بعد سے کوئی رابطہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ان کے پاس پانی اور خوراک کا کتنا ذخیرہ موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدنصیب محصور افراد کے حوالے سے ناامیدی کے تمام اشارے اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

پائیک دریا کول مائن کا رخ پہاڑ کے اندر افقی ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کی مغربی ساحلی پٹی کے جنوبی جزیرے کے اندر واقع ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں