1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیو یارک شوٹنگ، مشتبہ شخص پر فرد جرم عائد

عاطف بلوچ16 اگست 2016

نیو یارک میں ایک امام مسجد اور ان کے نائب کو ہلاک کرنے کے الزام میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر کے اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک اس کارروائی کے محرکات کا علم نہیں ہو سکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jips
نیویارک شہر کی ایک مسجد کے امام اور اُس کے نائب کے جنازے پر دعا مانگی جا رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/J. Lane

خبر رساں ادارے اے اپی نے نیو یارک شہر کی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک ایسے پینتیس سالہ مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، جس پر شبہ ہے کہ وہ اس قتل کی واردات میں ملوث تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اتوار کے دن حراست میں لیے گئے اس شخص سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق آسکر موریل نامی ملزم پر دہرے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ قتل کی یہ واردات ہفتے کے دن نیو یارک شہر کے علاقے کوئینز کے نواح میں واقع اوزون پارک میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔

ہلاک ہونے والے امام مسجد کا نام مولانا علاؤالدین اخون جی بتایا گیا ہے جبکہ ان کے ساتھی مقتول کی شناخت طہار الدین کے نام سے کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان پر حملہ اس وقت کیا گیا، جب وہ نماز ادا کرنے کے بعد اوزون پارک میں واقع الفرقان مسجد سے نکل کر واپس گھر جا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور نے عقب سے حملہ کیا اور گولیاں مقتولین کے سر میں لگیں۔

New York Al-Furqan Jame Masjid Moschee Präsentation Polizeizeichnung Imam-Attentäter
نیویارک شہر کی ایک مسجد کے امام اور اُس کے نائب کے قتل کا خاکہ جو پولیس نے جاری کیا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Ruttle

مولانا اخون جی کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا، جو دو برس قبل ہی امریکا منتقل ہوئے تھے۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد کہا ہے کہ بظاہر یہ حملہ مذہبی عقائد کو بنیاد بنا کر نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم کوئینز کی مسلمان آبادی نے اس حملے کو ’نفرت پر مبنی حملہ‘ قرار دیا ہے۔

پچپن سالہ مولانا اخون جی اور چونسٹھ سالہ طہار الدین کی آخری رسومات پیر کے دن ادا کر دی گئیں، جس میں مقامی مسلم آبادی کی ایک معقول تعداد نے شرکت کی۔ مقامی میڈیا کے مطابق کم ازکم ایک ہزار افراد ان مقتولین کی تدفین میں شریک ہوئے۔ اس علاقے میں بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔

تدفین کے بعد کچھ افراد نے ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد بھی کیا اور وہ اس مقام تک گئے، جہاں قتل کی یہ واردات رونما ہوئی تھی۔ مقامی بنگلہ دیشی کمیونٹی کے افراد نے اصرار کیا ہے کہ قتل کی یہ واردات مذہب کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات میں تمام عوامل کو پیش نظر رکھا جائے گا۔