1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو جنوبی افغانستان میں بھی

1 اگست 2006

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے اپنے ISAF دَستوں کی کارروائیوں کا دائرہ جنوبی افغانستان تک بھی پھیلا دیا ہے، جہاں اب تک امریکی قیادت میں سرگرمِ عمل اتحادی اَفواج طالبان چھاپہ ماروں کے خلاف برسرِپیکار تھیں۔ ISAF دَستے کے تقریباً آٹھ ہزار فوجیوں کو انتہائی خطرناک تصور کئے جانے والے جنوبی افغانستان میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نئی دہلی سے Kai Küstner کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/DYKX
قندھار ایئر پورٹ پر پیر 31 جولائی کو منعقدہ تقریب میں شریک امریکی اور نیٹو کمانڈر
قندھار ایئر پورٹ پر پیر 31 جولائی کو منعقدہ تقریب میں شریک امریکی اور نیٹو کمانڈرتصویر: AP

افغانستان میں محافظ دَستے اپنے کندھوں پر اپنا ساز و سامان اُٹھائے نیٹو کی قیادت میں ملک کے جنوب کی طرف روانہ ہو چکے ہیں لیکن اِن کندھوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد اِس وقت جو قدم اُٹھا رہا ہے، وہ درست ہے لیکن غلط وقت پر اُٹھایا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی برادری نے وہ موقع ضائع کر دیا ہے، جب اِس افغان علاقے میں کسی قدر آسانی سے قدم رکھا بھی جا سکتا تھا اور وہاں سے بخیر و عافیت واپس بھی لوٹا جا سکتا تھا۔ یہ موقع سن 2001ء میں ملا تھا، جب امریکہ نے طالبان کو دارالحکومت کابل سے باہر نکال دیا تھا۔ تب ملک کے کئی اور علاقوں کے ساتھ ساتھ جنوبی حصے کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔

اب افغانستان ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف گامزن ہے کیونکہ ماضی میں بہت بڑی غلطیاں کی گئیں۔ بلکہ ایسا نظر آتا ہے، جیسے ماضی کا دَور حال میں واپس لوٹ رہا ہو، اُن کٹر طالبان کی صورت میں، جو لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے کی بجائے اُن کے پورے کے پورے کنبوں کو ہلاک کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ طالبان اپنے دہشت پسندانہ سر پھر سے اُبھار چکے ہیں، جنوب میں زیادہ سے زیادہ دیہات کو فتح کرتے جا رہے ہیں اور مغربی دُنیا کے فوجی دَستوں کے ساتھ روزانہ جھڑپوں میں ملوث ہوتے ہیں۔

اِس کی وجوہات محض فوجی نوعیت کی نہیں ہیں: جنوبی افغانستان میں نہ صرف یہ کہ فوجیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے بلکہ وہاں تعمیرِ نو کا کام بھی نہیں ہو رہا۔ جہاں کابل جیسا شہر اقتصادی طور پر مختلف شعبوں میں آگے بڑھتا نظر آتا ہے، وہاں جنوب کا علاقہ بدستور ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہے۔

وہاں کے انسانوں کو بار بار بتایا تو یہ جاتا ہے کہ تعمیرِ نو کے کاموں کے لئے سینکڑوں ملین آ رہے ہیں لیکن افغان باشندوں کو جب اپنے اردگرد تعمیرِ نو کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تو وہ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے ساتھ دھوکا ہو رہا ہے۔

لیکن افغانستان میں شہریوں کو تین عشروں کی جنگ کے بعد ایک چیز کی ضرورت سب سے زیادہ ہے اور وہ ہے، امن و سلامتی۔ بین الاقوامی محافظ دَستوں نے امن و سلامتی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اِس وعدے کو پورا نہ کر سکے تو اُن کا اعتبار جاتا رہے گا۔

اب نیٹو نے کام سنبھالا ہے، سب کچھ بہتر کرنے کے عزم کے ساتھ۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے لیکن درست۔ دو نکات ایسے ہیں، جن سے اُمید پیدا ہوتی ہے: پہلا تو یہ کہ افغانستان میں فوجی دستوں کی نفری میں بالآخر دو گنا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ اب مقامی باشندوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط اور تعمیرِ نو پر زیادہ زور دیا جائے گا۔

لیکن سب سے پہلا کام ہو گا، سلامتی کا اہتمام کرنا، جو مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر مغربی دُنیا کے ان فوجی دَستوں کو جلد کامیابی حاصل نہ ہوئی تو مقامی باشندوں میں اُن کا اعتبار ختم ہوتا جائے گا۔