1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو سربراہی کانفرنس اور امریکہ کی نئی افغان پالیسی

گراہم لوکاس /عاطف توقیر3 اپریل 2009

نیٹو رہنما بشمول امریکی صدر باراک اوباما اس اتحاد کے 60 سال مکمل ہونے پر سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے فرانسیسی شہر شٹراس برگ پہنچ گئے ہیں۔ اس سربراہی کانفرنس کا ایک حصہ جرمن شہر باڈن باڈن میں بھی منعقد ہو گا۔

https://p.dw.com/p/HPbI
امریکی صدر باراک اوباما اور فرانیسی صدر نکولا سارکوزی شٹراس برگ میںتصویر: AP

لندن میں G20 سربراہی کانفرنس کی کامیابی کے بعد صدر اوباما اور نیٹو کے اس اجلاس سے وابستہ توقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے لیکن یہ امکانات اپنی جگہ موجود ہیں کہ صدر اوباما کے لئے نیٹو میں امریکہ کے اتحادیوں کو مختلف مسائل کے حل کے لئے اپنےموقف کا قائل کرنا کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہو گا۔

Protest gegen Nato Treffen Strasburg in Baden Baden
جرمن شہر باڈن باڈن میں جنگ مخالف مظاہرین ایک احتجاجی مظاہرے کے دورانتصویر: AP

ایک کانفرنس، دو شہر

بحر اوقیانوس کے شمالی حصے کے اس کامیاب دفاعی اتحاد کی تخلیق کی چھ دہائیاں مکمل ہو چکی ہیں اور ہر طرح سے اس تنظیم کو ایک کامیاب اتحاد گردانا جا سکتا ہے۔ لیکن اس اجلاس کے موقع پر مختلف علاقوں میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان جنگ مخالف مظاہروں کے باعث امریکی صدر سمیت نیٹو ممالک کے سربراہان ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اجلاس میں شرکت کے لئے وہاں پہنچے۔ جرمن شہر باڈن باڈن کی، جہاں نیٹو سربراہی اجلاس کا دوسرا حصہ منعقد ہوگا، مکمل طور پر ناکہ بندی کی جاچکی ہے۔ اسی طرح فرانسیسی شہر شٹراس برگ میں بھی کانفرس ہال کا پورا نواحی علاقہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کے کنٹرول میں ہے۔ سلامتی کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لئے شٹراس برگ میں 12 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ جرمن شہر باڈ ن باڈن میں بھی 14 ہزار پولیس اہلکار متعین ہیں۔ شٹراس برگ میں تو جنگ مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں جس دوران توڑ پھوڑ کے متعدد واقعات دیکھنے میں آئے اور پولیس نے تقریبا 300 مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا۔

اوباما کی افغان پالیسی

اس اجلاس میں امریکی صدر باراک اوباما افغانستان کے لئے واشنگٹن کی نئی پالیسی کے حوالے سے یورپی ممالک کی حمایت چاہتے ہیں جبکہ یورپ میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ اوباما کا افغانستان میں مزید امریکی فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش ہی کی پالیسی کا تسلسل ہے۔ صدر باراک اوباما نے امریکہ میں طویل مباحثے کے بعد افغانستان میں مزید 17 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا۔ ان کی جانب سے یہ اعلان افغانستان میں طالبان کی مسلسل کارروائیوں اور حملوں میں اضافے کی وجہ سے کیا گیا ہے تاہم واشنگٹن اس بات پر بھی زور دیتا آ رہا ہے کہ افغان فوج اور پولیس کو بھی تربیت دی جائے تاکہ وہ بہتر انداز سے خدمات سر انجام دے سکیں۔ اس مقصد کے لئے چار ہزار امریکی تربیت کاروں کو بھی افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئی امریکی پالیسی میں افغانستان میں سول سوسائٹی کی مضبوطی اور ریاستی اداروں کے استحکام کے حوالے سے بھی کئی منصوبے تجویز کئے گئے ہیں۔

Nato Treffen in Strasburg Kathedrale
نیٹو اجلاس کا پہلا حصہ فرانس جب کے دوسرا حصہ جرمنی میں ہوگاتصویر: AP

نئی امریکی پالیسی کا سب سے اہم نقطہ پاکستان پر اس بات کے لئے زور دینا ہے کہ وہ اپنی حدود میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائے۔ واشنگٹن کا ماننا ہے کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ پاکستانی سرحدی علاقوں میں ان کی پناہ گاہوں کی موجودگی اور وہاں خود کو دوبارہ منظم کرسکنے کے امکانات ہیں۔ اسی لئے امریکہ نے پاکستانی طالبان کے چند اہم ترین رہنماؤں کی گرفتاری میں مدد پر نقد انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستانی حدود میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکی حکام اب دونوں ملکوں کے لئے ایک پالیسی پر زور دے رہے ہیں۔ واشنگٹن میں سرکاری اہلکاروں نے یہ اشارے بھی دئیے ہیں کہ اعتدال پسند طالبان سے مذاکرات کے لئے ان کے دروازے کھلے ہیں۔ افغان صدرحامد کرزئی کی رضامندی سے سعودی عرب کی ثالثی میں ایسے گروپوں سے خفیہ مذاکرات پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں اور انہی مذاکرات کے انعقاد پر واشنگٹن میں سخت تنقید بھی سننے میں آرہی ہے۔ نئی افغان پالیسی میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء سے متعلق منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے لیکن یورپی نقطہ نظر سے فی الحال اس میں کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

Afghanistan Bombenanschläge in Kabul und Umgebung auf NATO und Polizei
امریکہ افغانستان میں مزید سترہ ہزار فوجی تعینات کر رہا ہےتصویر: AP

اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے جس کے تحت یہ دائرہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بعد دیگر سرحدی علاقوں تک بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں کئی طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں کہ ایسے حملوں سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔

جرمنی اس سے پہلے ہی یہ اشارہ دے چکا ہے کہ وہ افغانستان میں متعین اپنے 3500 فوجیوں کو جنگ زدہ علاقوں میں نہیں بھیجے گا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل امریکہ کی نئی افغان پالسی پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے یہ واضح کرچکی ہیں کہ جرمنی افغانستان میں ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی کے استحکام کے لئے ہی کام کرتا رہے گا۔ جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ جرمنی دیگر نیٹو ریاستوں کی طرف سے بھی افغانستان میں تعمیر نو کے لئے ان کے فوجیوں کی طرف سے خدمات کی فراہمی کا خواہاں ہے۔