1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو کے تعمیر کردہ ہوائی اڈے کابل حکومت کے کنٹرول میں

عابد حسین31 اگست 2015

ایک پلان کے تحت افغانستان میں نیٹو کی نگرانی میں تعمیر کیے جانے والے مختلف ہوائی اڈے کابل حکومت کی تحویل میں دیے جائیں گے۔ کابل حکومت اِن ہوائی اڈوں سے ملک کی اقتصادی ترقی میں بے پناہ اضافے کی توقع کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GOSm
تصویر: DW/Hamid Safi

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سن 2001 کے بعد افغانستان کے طول و عرض میں دو بلین ڈالر کی لاگت سے کم از کم آٹھ ہوائی اڈے تعمیر کیے تھے۔ اِن چھوٹی بڑی قابل استعمال ایئر فیلڈز پر مزید تعمیر سے انہیں شاندار ہوائی اڈوں میں بدلا جا سکتا ہے۔

ان ہوائی اڈوں کو کابل حکومت کے کنٹرول میں دیے جانے کے پراجیکٹ کے انچارج سابقہ رکن پارلیمنٹ محمد داؤد سلطان زئی ہیں۔ سلطان زئی کا خیال ہے کہ یہ ہوائی اڈے اگر مکمل ہوائی اڈوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو یہ کابل حکومت کے لیے سِلک روڈ سے کم نہیں ہوں گے۔ شہروں کے درمیان راستے حالیہ تبدیلیوں کے باوجود خطرناک ہونے کی وجہ سے ہوائی اڈے سفر کا مؤثر ذریعہ بن سکتے ہیں۔ سلطان زئی کے مطابق اِن ہوائی اڈوں سے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مختلف شہروں کے درمیان بھی رابطے بحال ہو سکیں گے۔

امریکی فوج کے میجر جنرل ٹوڈ سیمسونائٹ کا کہنا ہے کہ جنگ کے دور میں تعمیر کی گئی ایئر فیلڈز کو بند کرنے کی بجائے اشرف غنی حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ اشرف غنی حکومت کا خیال ہے کہ اِن ایئر فیلڈز کو مکمل ہوائی اڈوں کی صورت دینے سے اقتصادیات میں ایک بہت بڑی تبدیلی ممکن ہے۔ اِن ایئر فیلڈز کی نجکاری دبئی منعقدہ ایک بین الاقوامی میلے میں کی جائے گی۔ نجکاری کا یہ روڈ شو ستمبر میں خلیجی ریاست دبئی میں منعقد کیا جائے گا۔ امریکی حکومت کے ساتھ معاہدے میں زیادہ قیمت حاصل کرنے والے ایئر فیلڈز حکومت کے حوالے کیے جائیں گے اور بقیہ کو توڑ کر ختم کر دیا جائے گا۔

Bamiyan Airport
بامیان ہوائی اڈے پر کھڑا ایک ہوائی جہازتصویر: DW/Behzad

جن ہوائی اڈوں کو امکاناً نجکاری کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، اُن میں قندھار شہر سے بیس کلو میٹر کی دوری پر واقع قندھار ایئر فیلڈ بھی شامل ہے۔ قندھار میں دو ہوائی پٹیاں ہیں، جن میں سے ایک فوجی مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ قندھار میں دو ایئر ٹریفک کنٹرولنگ ٹاور بھی ہیں۔ اِس کے علاوہ سامان کا گودام اور کولڈ سٹوریج بھی ہے۔ اسی طرح ہرات کا شنداند ایئر فیلڈ، بلخ صوبے میں مزار شریف، بگرام، ننگرہار صوبے کا جلال آباد اور کابل کا ایئر فیلڈ بھی نجکاری کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ہوائی فیلڈ موجودہ کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کےعلاوہ ہے۔

افغانستان میں فضائی انفراسٹرکچر پہلے سے موجود تھا لیکن اب یہ ڈھانچہ لڑکھڑا گیا ہے۔ مختلف شہروں میں کُل ستائیس ہوائی اڈے ہیں اور کئی ہوائی اڈوں کے رن ویز اور عمارتیں لرزتی ہیں۔ افغانستان میں چار کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا درجہ حاصل ہے۔ قابلِ استعمال ہوائی اڈوں پر 130 کے قریب ملکی اور غیر ملکی پروازیں ہفتہ وار بنیاد پر اترتی اور روانہ ہوتی ہیں۔ افغان سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAAA) کے ترجمان قاسم رحیمی کے مطابق شہری ہوابازی کے با اختیار محکمے کے قیام کے بعد سے پروازوں کے لیے ضابطوں اور سروسز میں حیران کُن مثبت تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ اِس باعث سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

افغانستان میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد تقریباً 45 ہزار افراد ماہانہ بنیادوں پر ملک کے اندر ہوائی سفر اختیار کر رہے ہیں۔ سن 2013 میں ایسے مسافروں کی تعداد محض بارہ ہزار تھی۔ مسافروں میں اضافے کے بعد ہوائی کمپنی کے ریونیو میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوابازی کے شعبے میں گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر کی آمدن ہوئی تھی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق رواں برس اب تک اِس میں پچیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اِس سیکٹر کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ایئر ٹریفک کنٹرول ہے۔ سن 2001 سے امریکی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت افغان فضائی حدود کی نگرانی شروع کی تھی اور یہ معاہدہ اگلے برس جون میں ختم ہو جائے گا۔ افغان حکومت مختلف ہوائی اڈوں پر ایئر ٹریفک کنٹرولنگ کی ذمہ داری اگلے برس سنبھالے گی۔