1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپالی وزیر اعظم کا بھارتی دورہ

20 اکتوبر 2011

کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع جمہوریہ نیپال کے وزیر اعظم بابو رام بھٹا رائے بھارتی دارالحکومت پہنچ گئے ہیں۔ وہ اپنے دورے کے دوران بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12vah
بابو رام بھٹا رائے دو ماہ قبل ہی وزیراعظم بننے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

جمہوریہ نیپال کے وزیر اعظم بابو رام بھٹا رائے اپنے دورے کے دوران دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تناؤ کے شکار دوطرفہ تعلقات میں خیر سگالی اور گرم جوشی کے متمنی ہیں۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ بابو رام بھٹا رائے کی ماؤ نواز سیاسی جماعت اور نئی دہلی کے درمیان کئی قسم کے شکوک پائے جاتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق نئے وزیر اعظم یقینی طور پر ان شکوک کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

Der nepalesische Premier Baburam Bhattarai
بھٹا رائے کا یہ خیر سگالی کا دورہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بھارت میں قیام کے دوران نیپالی وزیر اعظم بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کرنے کے علاوہ صدر پرتبھا پاٹل سے بھی ملیں گے۔ بھٹا رائے کے دورے کو خیر سگالی کے دورے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ وہ بھارتی تاجروں سے بھی خصوصی ملاقات کریں گے۔

ماضی میں بھارت کا سیاسی اثر نیپال کے بادشاہی دور کے نظام پر براہ راست موجود ہوتا تھا لیکن شاہ گیانندرا کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے نیپال میں پائی جانے والی سیاسی بیداری نے پرانی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ امر اہم ہےکہ بھارت اس ریاست کا سب سے اہم ترین تجارتی پارٹنر ہونے علاوہ اس کے ایندھن کی سپلائی کا واحد ذریعہ ہے۔

نئی دہلی حکومت کے نیپال کے بائیں بازو کے سیاستدانوں کو فاصلے پر رکھنے کی ایک وجہ بھارت میں جاری بائیں بازو کی بڑی مزاحمتی تحریک ہے۔ بھارتی خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ ملک کی بائیں بازو کی مزاحمتی تحریک کے سرگرم کارکنوں کے روابط نیپال اور چین کے ساتھ ہیں۔ نیپال میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والی شخصیت کی پہلی منزل نئی دہلی ہوا کرتی تھی لیکن مسلح عوامی تحریک کے بعد بننے والی پہلی منتخب حکومت کے وزیر اعظم پشپ کمل ڈہل المعروف پراچند نے اس روایت کو توڑتے ہوئے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔

Die Regierungsvertreter Prakash Chandra Lohani (1.v.l.) und Kamal Thapa (2.v.l.) und die Maoistenanführer Baburam Bhattarai (1.v.r.) und Krishna Bhadur Mahara (2.v.r.)
نیپال کی سیاسی قیادت ایک میٹنگ میںتصویر: dpa

بابو رام بھٹا رائے کا وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے انتخاب دو ماہ قبل ہوا ہے اور وہ ماؤنواز سیاسی جماعت کے ان چند سیاستدانوں میں شمار کیے جاتے ہیں، جو بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں۔ نیپال کے ایک اہم تھنک ٹینک نیپالی مرکز برائے عصری علوم (Nepal Center for Contemporary) کے سیاسی تجزیہ کار لوک راج برال کا خیال ہے کہ بھٹا رائے بھارت کو قبول ہو سکتے ہیں اور ایسی امید کی جا رہی ہے کہ وہ نئی دہلی اور کھٹمنڈو کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے میں پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

بھٹا رائے وزیر اعظم بننےکے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر ہیں۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ بابو رام بھٹا رائے کے وزیر اعظم بننے میں بھارت کی ڈھکی چھپی حمایت بھی شامل رہی ہے اور اسی باعث بھارت نواز مادیسی پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں ان کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔

بابو رام بھٹا رائے نے بھارت کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ وہ نیپال کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے والی مسلح تحریک میں بھی شریک رہے تھے۔ وہ نیپال کی پہلی منتخب حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ ترتیب کے اعتبار سے وہ نیپال کے پینتیسویں وزیر اعظم ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں