1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال بھر میں شاہ گیانیندرا کے خلاف احتجاجی مظاہرے

11 اپریل 2006

نیپال میں گذشتہ کئی روز سے احتجاجی مظاہرے بھی جاری ہیں اور کرفیو بھی۔کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے بڑی بے جگری سے پولیس کے لاٹھی چارج، ربڑ گولیوں اور آنسو گیس کا مقابلہ کرتے رہے۔ تمام شہروں کی گلیوں اور سڑکوں کے اندر پولیس اور مظاہرین کی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYM3
تصویر: AP

نیپال میں 58 سالہ شاہ گیانیندرا نے کوئی 14 مہینے پہلے جمہوریت کا بوریا بستر گول کرتے ہوئے اقتدار مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ گذشتہ جمعرات سے ملک کی اپوزیشن جمہوریت کی بحالی کے لئے عوام کو سڑکوں پر لے آئی ہے۔ دارالحکومت کٹھمنڈو میں منگل گیارہ اپریل کے روز یعنی مسلسل مظاہروں کے چھٹے دن سرکاری فوجی دَستوں نے ٹائر جلانے والے اور نعرہ بازی کرنے والے مظاہرین کے خلاف نہ صرف آنسو گیس استعمال کی بلکہ اُن پر فائرنگ بھی شروع کر دی ، جس کے نتیجے میں کم از کم بارہ افراد زخمی ہو گئے۔

اِس سے پہلے پیر کو ہونے والے مظاہرے بھی گذشتہ دِنوں کے مقابلے میں زیادہ سخت اور شدید تھے۔ اب تک کے مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین اور زخمیوں کی سینکڑوں میں ہے۔ حراست میں لئے گئے افراد کی تعداد ایک ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔ پیر کو کوئی پانچ ہزار افراد نے کٹھمنڈو کے نواحی قدیمی شہر کیرتی پُور کی سڑکوں پر دھرنا مارا اور کرفیو کے حکم کو توڑنے میں کامیاب رہے۔
ایک شخص ہیراک جی مہارجن کا کہنا ہے ، اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ شاہ گیانیندرا خود اقتدار سے الگ ہوتے ہیں یا انہیں بذریعہ طاقت اتارا جاتا ہے۔ دارالحکومت کے علاقے کالان کی میں ایک نوجوان نے ٹائر جلاتے ہوئے میڈیا کے ایک کارکن کو بتایا کہ لوگ مرنے سے گھبرا نہیں رہے۔ نارائن گھاٹ اور پوکھارا کے بعدبانی پا کے مظاہرین کو پولیس کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں بھی ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اِطلاع ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق ان مظاہروں کے باعث کئی شہروں میں بجلی کا نظام معطل ہو کر رہ گیا ہے اور پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نیپال میں جاری مظاہروں میں زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ حکومت اِن کو اب مزید سختی سے کچلنا چاہتی ہے اور یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اِن مظاہرین میں اتنی سکت ہے کہ وہ شاہ گیانیندرا کی آمرانہ حکومت کو بھاگنے پر مجبور کر دیں۔

تازہ منصوبہ بندی کے مطابق اپوزیشن جماعتیں مظاہروں کے اِس سلسلے کو طول دینا چاہتی ہیں تاکہ ملک میں آمرانہ حکومت ختم کرتے ہوئے جمہو ریت کو فروغ دیا جا سکے۔ نیپالی کانگریس پارٹی کے ایک سینئر لیڈر گینندرا بہادر کرکی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ تحریک بہت توانا ہے اور اب اِس میں اور شدت پیدا کی جائے گی۔

دوسری طرف شاہ گیانیندرا کے وزیر داخلہ کمل تھاپہ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اب تک مظاہرین سے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر بھی نرمی برتی گئی ہے لیکن مستقبل میں قانون کی پاسداری کے لئے سخت احکامات جاری کر دئے گئے ہیں۔ ابھی تک پورے ملک میں موبائل ٹیلی فون کی سروس معطل ہے اور اِس کا بظاہر مقصد یہی ہے کہ شاہ حکومت مظاہرین میں کوئی رابطہ استوار ہونے کا بھی خطرہ مُول نہیں لینا چاہتی۔

ماہرین کے خیال میں موجودہ تحریک کا المیہ یہ ہے کہ اِس میں ایک جاندار اور قدرے جواں سال سیاسی لیڈر کی کمی ہے۔ اِس وقت تمام اہم رہنما بڑی عمر کے ہیں اور سبھی یا تو گھروں کے میں نظربند ہیں یا پھر وہ تحریک میں نظم پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔مزید یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں عوام میں قدرے غیر مقبول بھی ہیں کیونکہ اُن کو بدعنوانیوں کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ دارالحکومت کے شہریوں کا کہنا ہے کہ تحریک کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت میں اضافہ تو ضرور ہوا ہے لیکن اِس میں شدت آنے کی وجہ ہلاکتیں اور زخمیوں کا خون ہے۔ نیپال میں سرگرم باغی بھی اِس تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔