1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال میں جمہوری دور کا آغاز

29 مئی 2008

نیپال میں بادشاہت کے خاتمے اور ملک کو جمہوری ملک قرار دینے پر عوام نے سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں اور مٹھائیں تقسیم کیں۔ آئینی اسمبلی اب ملک کا نیا آئین ترتیب دے گی۔

https://p.dw.com/p/E7zk
ماؤ نواز حامی کھٹمنڈو کی سڑکوں پر خوشیاں مناتے ہوئےتصویر: AP

جمعرات کےدن نیپال میں نومنتخب آئین ساز اسمبلی نےوہاں تقریبا ڈھائی سوسال سےرائج بادشاہت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ماؤ نوازوں کی اکثریت والی نئی اسمبلی نے باضابطہ طور پر ووٹنگ کے ذریعے بادشاہت کے خلاف ووٹ ڈالا۔ کل چھ سو ایک نشستوں والی اسمبلی میں صرف چار پارلمنٹیریز نے بادشاہت کے حق میں ووٹ ڈالے۔

اسمبلی سے اکثریت کے ساتھ منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ نیپال ایک آزاد، غیر منقسم ، خود مختار ، لادین اور جمہوری ملک ہے۔

Porträtfoto des nepalischen Königs Gyanendra Porträtfoto
نیپال کے بادشاہ گینیندراتصویر: AP

اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بادشاہ وقت گینندرا سے شاہی محل کو خالی کر انے کے بعد اس محل کو قومی عجائب گھر میں بدل دیا جائے گا۔ بادشاہ کو محل خالی کرنے کے لئے پندرہ دن کا وقت دیا گیا ہے تاہم یہ معلوم نہیں کہ وہ کب تک محل کو خیر باد کہیں گے۔

اب نو منتخب حکومت کا ایک اہم کام ملک کا نیا دستور مرتب دینا ہے۔ نئے آئین کی تیاری کے سلسلے میں آئنی اسمبلی کو دو سال کی مہلت دی گئی ہے۔

ایک ماہ قبل نیپال میں عام پارلیمانی انتخابات میں ماؤنوازوں نے اپنے منشور میں ملک کو بادشاہت سے آزاد کر کے جمہوری ملک بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور انہیں اپنے اس منشور کے بدلے میں عوام نے بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیاتھا۔

Rebellenführer Prachanda und Madhav Nepal nach Friedensgesprächen
Maoist rebel chief Prachanda (L) shakes hand with Madhav Nepal (R), senior leader of the seven parties alliance after peace talks with Prime Minister Girija Prasad Koirala at the Prime Minister's residence at Baluwatar in Kathmandu on Friday. 16 June 2006. Nepal's government agreed on Friday to dissolve parliament and set up an interim administration including Maoist rebels after 11 hours talks. EPA/NARENDRA SHRESTHA +++(c) dpa - Report+++تصویر: picture-alliance/dpa

ماؤ نواز راہنما پراچندا نے کہا کہ نئے نیپال کو بنانے کے لئے عالمگیریت سمیت اکیسویں صدی کے دیگر اہم عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک لمبی مدت تک بادشاہت کے خلاف نبرد آزما رہنے والے ماؤنواز راہنما پراچندا ، گزشتہ ماہ کے انتخابات کے بعد نیپال کی مضبوط ترین سیاسی شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ تقریبا ایک عشرے تک انتہا پسند سمجھے جانے والےسابق ماؤ نواز باغی سن دو ہزار چھ میں سیاسی طاقت بن کر عوام کے سامنے آئے جن کا مقصد بادشاہت کا خاتمہ اور ملک کو جمہوری بنیادوں پر کھڑا کرنا تھا۔ اس سے قبل تقریبا ایک دہائی تک ماؤنواز باغی اور انتہا پسند تصور کئے جاتے تھے اور بادشاہی نظام نے انہیں امن اور سلامتی کا دشمن قرار دے رکھا تھا۔

بادشاہت کے خاتمے پر نیپال میں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور خوشیاں مناتے رہے۔ بالخصوص دارلحکومت کھٹمنڈو میں میلے کا سماں رہا اور لوگ گاتے ، ناچتے اور مٹھایئاں تقسیم کرتے رہے۔

گزشتہ روز کھٹمنڈو میں تین بم دھماکے بھی ہوئے، اطلاعات کے مطابق بادشاہ اور ہندو نواز حامیوں نے یہ بم دھماکے کئے۔ ان میں سے ایک بم دھماکہ اسمبلی ہاؤس کے باہر کیا گیا تاہم ان دھماکوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ نیپال میں ماؤ نواز حکومت سازی کے بعد ہمسایہ ملک بھارت نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کیونکہ بھارت حکومت کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے چین سے قریبی تعلقات ہیں اور ان اقتدار میں آنا بھارت کی ریاست آندھر پردیش میں ماؤ باغی تحریک کو مضبوط کر سکتا ہے۔ تاہم پراچندا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات کو ایک جیسا رکھنے کے خواہشمند میں اور بالخصوص بھارت کے ساتھ دوستی استوار کرنا چاہتے ہیں۔