1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال کے سیاسی منظر پر ایک بار پھر بے یقینی کے بادل

15 اگست 2011

اتوار کو نیپال کے وزیر اعظم جلاناتھ کھنال نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس سے اس ملک کے سیاسی حالات ایک بار پھر ابتر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12Gak
کھنال وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی
کھنال وزارتِ عظمیٰ سے مستعفیتصویر: AP

آج پیر کو دارالحکومت کٹھمنڈو میں پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی تین سیاسی جماعتوں نے بتایا کہ اُن کے درمیان ایک نئے سربراہِ حکومت کے موضوع پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا ہے۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ مشترکہ طور پر جلاناتھ کھنال کے جانشین کی نامزدگی پر تبادلہء خیال کر رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جماعت کی خواہش ہے کہ نئی مخلوط حکومت کی قیادت اُسی کو سونپی جائے۔

کھنال کو، جو ایک اعتدال پسند کمیونسٹ ہیں، چھ مہینے قبل فروری میں ایک طویل اور صبر آزما سیاسی عمل کے بعد وزیر اعظم منتخب کیا گیا تھا۔ تب اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اُن وعدوں کو عملی شکل دیں گے، جو ماؤ نواز باغیوں کے ساتھ سن 2006ء کے ایک امن سمجھوتے میں کیے گئے تھے۔

تاہم سیاسی قوتوں کے درمیان نہ ختم ہونے والے اندرونی تنازعات کھنال کی اِن کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے، جن کا مقصد کیمپوں میں مقیم ہزاروں سابقہ ماؤ نواز جنگجوؤں کی مدد کرنا اور سن 2008ء میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد نیپال کا پہلا جمہوری آئین تیار کرنا تھا۔

ملکی صدر رام باران یادو کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کھنال نے کہا: ’’مَیں نے قومی اتفاقِ رائے کی ایک حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔‘‘

نیپال 2009ء ہی سے سیاسی ابتری کا شکار چلا آ رہا ہے، جب ماؤ نوازوں کے قائد پراچندا نے ملکی صدر کے ساتھ قومی فوج پر کنٹرول کے سلسلے میں ایک تنازعے کے باعث وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا
نیپال 2009ء ہی سے سیاسی ابتری کا شکار چلا آ رہا ہے، جب ماؤ نوازوں کے قائد پراچندا نے وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

نیپال 2009ء ہی سے سیاسی ابتری کا شکار چلا آ رہا ہے، جب ماؤ نوازوں کے قائد پراچندا نے ملکی صدر کے ساتھ قومی فوج پر کنٹرول کے سلسلے میں ایک تنازعے کے باعث وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

سابقہ ماؤ نوازوں کو ملکی پارلیمان میں اکثریت تو حاصل ہے لیکن اتنی نہیں کہ وہ اکیلے حکومت تشکیل دے سکیں۔ اب اُن کا اصرار ہے کہ وہ نئی تشکیل پانے والی کسی بھی مخلوط حکومت میں قائدانہ کردار ادا کریں۔ یہ نئی حکومت نہ صرف 19 ہزار سابق ماؤ نواز جنگجوؤں کی قسمت کا فیصلہ کرے گی بلکہ تین ماہ کے اندر اندر ایک نئے آئین کی تیاری کے عمل کی بھی نگرانی کرے گی۔

دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف یہ ہے کہ پہلے ماؤ نوازوں کو اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کر دینے چاہییں اور اپنے فوجی کیمپ تحلیل کر دینے چاہییں، اِس کے بعد ہی اُنہیں ایک نئی مخلوط حکومت بنانے کی اجازت دی جائے۔ سابقہ باغی اب تک یہ شرط ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔

سیاسی بے یقینی کی یہ فضا نیپال کی معیشت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کرے گی، جسے اب تک مغربی امداد، سیاحت اور بیرون ملک مقیم نیپالیوں کی بھیجی ہوئی رقوم نے ہی سہارا دے رکھا ہے۔ نیپال میں لوڈ شیڈنگ اور افراط زر نے پہلے ہی عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان جلد کوئی اتفاقِ رائے نہ ہوا تو حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں