1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’وائٹ ہاؤس کو امریکی تاریخ تباہ نہ کرنے دی جائے‘، وکی لیکس

مقبول ملک
4 جنوری 2017

خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے بانی نے امریکا میں وائٹ ہاؤس ذرائع سے اپیل کی ہے کہ وہ باراک اوباما کے آٹھ سالہ دور صدارت کے خاتمے سے قبل اہم دستاویزات کاپی کر کے انہیں وکی لیکس کو مہیا کریں۔

https://p.dw.com/p/2VEyP
USA Wirtschaft Shutdown
تصویر: SAUL LOEB/AFP/Getty Images

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے بدھ چار جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج نے کہا ہے کہ اس سے قبل کہ دو مرتبہ صدارتی منصب پر فائز ہونے والے باراک اوباما اس ماہ کی بیس تاریخ کو وائٹ ہاؤس سے حتمی طور پر رخصت ہو جائیں، امریکی صدر کی اس سرکاری رہائش گاہ کے ذرائع کو چاہیے کہ وہ اہم خفیہ دستاویزات سامنے لانے میں اس ویب سائٹ کی مدد کریں۔

نو منتخب ریپبلکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج سے قریب دو ہفتے بعد اپنی ذمے داریاں بیس جنوری کو سنبھالیں گے، جس کے ساتھ ہی باراک اوباما وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو جائیں گے اور یہ جگہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سرکاری رہائش گاہ بن جائے گی۔

اس حوالے سے وکی لیس کے بانی جولیان آسانج نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’(امریکی انتظامیہ کے) سسٹم ایڈمنز کو چاہیے کہ وہ وائٹ ہاؤس کو ایک بار پھر امریکی تاریخ تباہ نہ کرنے دیں۔ اہم دستاویزات کی نقول ابھی تیار کریں اور انہیں جب بھی چاہیں، وکی لیکس کو بھیج دیں۔‘‘

Großbritannien Botschaft von Ecuador in London
جولیان آسانج جون دو ہزار بارہ سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
Großbritannien Wikileaks Assange (picture alliance/AP Photo/F. Augstein)
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein

اس کے علاوہ اپنی ایک اور ٹویٹ میں آسانج نے مزید لکھا، ’’ہم کسی بھی ایسی خفیہ اطلاع کی فراہمی کے لیے 20 ہزار امریکی ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اوباما انتظامیہ کے کسی بھی ایسے ایجنٹ کا نام منظر عام پر آ جائے یا وہ گرفتار کر لیا جائے، جس نے اہم سرکاری ریکارڈ تباہ کیا ہو۔‘‘

امریکا میں مقامی وقت کے مطابق منگل تین جنوری کی رات ٹوئٹر پر اپنے اس پیغام کے اجراء کے بعد جولیان آسانج نے امریکا کے فوکس ٹیلی وژن نیٹ ورک کو ایک تفصیلی انٹرویو بھی دیا۔ فوکس ٹیلی وژن کو آسانج نے یہ انٹرویو برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں دیا، جہاں وہ جون 2012ء سے پناہ لیے ہوئے ہیں۔

قریب ساڑھے چار سال قبل آسانج نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں اس لیے پناہ لے لی تھی کہ برطانوی حکام انہیں ملک بدر کر کے تفتیش کے لیے سویڈن کے حوالے نہ کریں۔ آسانج کو سویڈن میں اپنے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات کا سامنا ہے، جسے وہ ’وکی لیکس ہی کی وجہ سے‘ سیاسی وجوہات کی بناء پر قائم کیا گیا مقدمہ قرار دیتے ہیں۔

اپنے اس انٹرویو میں آسانج نے اس بارے میں کوئی روشنی نہ ڈالی کہ گزشتہ برس نومبر کے امریکی صدارتی الیکشن سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی حریف ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کے سربراہ جان پوڈیسٹا اور ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کی ہزاروں خفیہ ای میلز کے افشاء میں مرکزی کردار کس نے ادا کیا تھا۔

Wikileaks
وکی لیکس نے امریکی الیکشن سے قبل ہزاروں ڈیموکریٹک ای میلز لیک کر دی تھیںتصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

وکی لیکس نے یہ ای میلز صدارتی انتخابات سے قبل جاری کی تھیں اور امریکی انٹیلیجنس ادارے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان دستاویزات کے افشاء کے ذریعے کا تعلق روس سے تھا اور ماسکو مبینہ طور پر نومبر کے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونا چاہتا تھا۔

45 سالہ آسٹریلین شہری جولیان آسانج نے اپنے اس انٹرویو میں تاہم تردید کی کہ ان ڈیموکریٹک ای میلز کو منظر عام پر لانے والے ذریعے کا روسی حکومت یا اس سے تعلق رکھنے والے حلقوں سے کوئی تعلق تھا۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا جان پوڈیسٹا اور ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کی ای میلز کے افشاء سے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی الیکشن جیتنے میں مدد ملی، آسانج نے کہا، ’’یہ بھلا کون جانتا ہے؟ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قطعی ناممکن ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں