1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’واپس اپنے ملک جاؤ، جہاں تم پر کوئی گاڑی نہ چڑھائے‘

شمشیر حیدر Reuters
28 اپریل 2017

بائیس سالہ مصری لڑکی شادن جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے آئی تھی۔ جرمن شہر کوٹبُس میں ایک شخص نے اس پر گاڑی چڑھا دی اور ہسپتال میں زیرعلاج شدید زخمی شادن تین روز بعد چل بسی۔ یہ واقعہ حادثاتی تھا یا اس کے محرکات کچھ اور تھے؟

https://p.dw.com/p/2c5IO
Deutschland Mordfall Jaden in Herne
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch

نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق رواں ماہ کے وسط میں ایک بائیس سالہ مصری خاتون طالب علم گاڑی کی ٹکر سے شدید زخمی ہو گئی تھیں۔ شادن ایم نامی مصری طالب علم حادثے کے تین روز بعد اٹھارہ اپریل کے روز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں انتقال کر گئی تھیں۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

جرمن دفتر استغاثہ کا کہنا ہے کہ اب اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ کیا یہ محض ایک سڑک پر رونما ہونے والا حادثہ تھا یا یہ اجانب دشمنی پر مبنی ایک دانستاﹰ کیا گیا حملہ۔ دفتر استغاثہ کے مطابق اس بارے میں کار چلانے والے شخص سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

رواں مہینے یہ واقعہ جرمنی کے مشرقی حصے میں واقع کوٹبُس نامی شہر میں پیش آیا تھا، جہاں مصر سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ شادن تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ جرمن دفتر استغاثہ کے ترجمان ہورسٹ نوٹباؤم کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے عینی شاہدین سے ملنے والی نئی معلومات کی روشنی میں اس حادثے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اس واقعے کے دس روز بعد دو عینی شاہدین نے حکام کو بتایا کہ حادثہ پیش آنے کے بعد کار کے ڈرائیور نے سڑک پر زخمی حالت میں گری شادن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’واپس اپنے ملک جاؤ، وہاں تم پر کوئی گاڑی نہیں چڑھائے گا، احمق مہاجرین۔‘‘

آج اٹھائیس اپریل بروز بدھ نوٹباؤم نے روئٹرز کو بتایا کہ ان معلومات کی روشنی میں گاڑی کے ڈرائیور سے تفتیش کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا اس واقعے کے محرکات نسل پرستی اور اجانب دشمنی پر مبنی  تھے یا یہ محض ایک حادثہ تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ مصری طالب علم پر جان بوجھ کر گاڑی چڑھا دی گئی تھی۔

کوٹبُس شہر وفاقی جرمن ریاست برانڈنبرگ میں واقع ہے۔ ریاستی وزیر تعلیم مارٹینا مونچ نے نئی معلومات کی روشنی میں تحقیقات شروع کیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی میں غیر ملکی طالب علم، اساتذہ اور محققین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

روئٹرز سے گفت گو کرتے ہوئے صوبائی وزیر تعلیم نے مزید کہا، ’’اگر یہ الزام سچ ثابت ہوا تو یہ ایک انتہائی شرمناک بات ہو گی۔ یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ حادثے کے بعد شدید زخمی حالت میں سڑک پر گری ہوئی لڑکی کو اس انداز میں نسل پرستانہ اور اجانب دشمنی پر مبنی جملوں کا نشانہ بنایا جائے، اور وہ بھی شہر کے وسط میں۔‘‘

صوبائی وزارت تعلیم کے مطابق برانڈنبرگ میں قریب آٹھ ہزار غیر ملکی طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں جب کہ چھ سو سے زائد غیر ملکی اساتذہ بھی اس جرمن ریاست میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے