1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واپڈا نے چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے کیوں ختم کیے؟

عبدالستار، اسلام آباد
23 جنوری 2017

واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی واپٖڈا نے داسو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والی ایک چینی کمپنی کے ساتھ ہونے والے دو معاہدے ختم کر دیے ہیں۔ جانیے یہ معاہدے کیوں ختم ہوئے؟

https://p.dw.com/p/2WGzz
Lianyungang Atomkraftwerk aus dem Jahre 2000
تصویر: Getty Images/P.Jing

منسوخی کی وجوہات بتاتے ہوئے واپڈا کے ترجمان محمد عابد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ابتدائی کاموں کے دو معاہدے تعمیراتی کمپنی کی جانب سے معاہدوں میں موجود مروجہ قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور تعمیراتی کام شروع نہ کرنے کی وجہ سے منسوخ  کیے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا یہ دونوں معاہدے واپڈا اور ملک کو نقصان سے بچانے کے لئے منسوخ کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں کا تعلق ابتدائی کاموں سے متعلق ہے، جن میں پراجیکٹ کے لئے کالونی، چو چنگ ری سیٹلمنٹ سائٹ اور ستیال میوزیم کی تعمیر شامل ہے۔
ترجمان نے کہا، ’’ان معاہدوں کی منسوخی سے منصوبے کی مجموعی تکمیل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اسے مقررہ مدت میں ہی مکمل کیا جائے گا۔‘‘
محمد عابد نے مزید بتایا، ’’منسوخ کیے گئے دونوں معاہدوں کو ری ایوارڈ کیا جائے گا، جس کے لئے اخبارات میں اشتہارات دے دیے گئے ہیں اور جیسے ہی پراسیس مکمل ہوگا، کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیے جائیں گے۔‘‘
لیکن ماہرین کے خیال میں اس سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کی جانے والی کوششیں متاثر ہوں گی۔ سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یقیناً اس سے فرق تو ضرور پڑے گا۔ ہمارے یہاں بین الاقوامی کمپنیوں کو کام کرتے وقت مسائل کا سامنا رہتا ہے اور اس کی وجہ ہے ملک میں نوکر شاہی کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں، کرپشن اور ہمارے اداروں کی کمزوریاں ہیں۔ اسی وجہ سے کمپنیاں ملکی عدالتوں میں بھی جاتی ہیں اور بین الاقوامی اداروں سے بھی رابطہ کرتی ہیں۔ ‘‘

چین چار ہزار میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن تعمیر کرے گا
معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’تمام مسائل کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے۔ حکومت کو بھی یہ شکوہ ہے کہ چینی کمپنیاں اس طرح کام نہیں کر رہی جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے۔ معیار کے حوالے سے بھی حکومت کو شکایات ہیں جب کہ ہماری طرف سے بھی کچھ کوتاہیاں ہیں۔ میرے خیال میں حالات اس نہج پر نہیں جائیں گے کہ چینی کمپنیاں اپنا سرمایہ نکال لیں۔ پاکستان میں تو یہ تصور ہے کہ چین ہم پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین کو بھی بندرگاہ تک رسائی سے بہت سارے فوائد حاصل ہوں گے۔ لہذا میرے خیال میں دونوں ممالک محتاط رویہ اختیار کریں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’ اگر حکومت نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں کیا تو اس کے لئے بہت سے سیاسی مسائل ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں حکومت مکمل طور پر تو اس مسئلے کو حل نہیں کر سکے گی لیکن وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوجائے گی کہ اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔‘‘
معروف معیشت دان ڈاکٹر وقار احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس معاہدے کی منسوخی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، ایک کی جگہ کوئی دوسری چینی کمپنی آجائے گی۔ ان کی تو ساری کمپنیاں ہی سرکار کے ماتحت ہیں لیکن مسئلہ خالی مختلف پراجیکٹس کو مکمل کرنا نہیں بلکہ لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کے لائن لاسسز، بجلی کی چوری، ادائیگی اورگردشی قرضوں کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ توانائی پالیسی دو ہزار تیرہ کو صحیح معنوں میں نافذ کرنا ہوگا۔‘‘