1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ورلڈ ٹیچرز ڈے پر پاکستانی اساتذہ کا احتجاج

5 اکتوبر 2010

پاکستان میں اساتذہ آج منائے جانے والے ورلڈ ٹیچرز ڈے کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں تدریسی عملے نے حکومت کی مبینہ ’تعلیم مخالف‘ پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔

https://p.dw.com/p/PVmG
لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کا احٹجاج، فائل فوٹوتصویر: DW

عالمی یوم اساتذہ کے موقع پر احتجاج کرنے والی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر نے کہا کہ اساتذہ کو حکومت کی طرف سے نہ تو کوئی عزت دی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی استحقاق۔ انہوں نے اپنے ساتھی مظاہرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوائے چند ایک افراد کے تمام احتجاجی مظاہرین پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ لیکن ان اساتذہ کو وہ وقار اور سماجی حیثیت نہیں دئے جاتے، جن کے وہ مستحق ہیں۔ اس خاتون پروفیسر نے پوچھا کہ ایسے حالات میں کسی کو ایسی ڈگریوں سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

پاکستان میں حالیہ سیلابوں کے بعد حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں جو کٹوتی کی تھی، اس سے اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص بجٹ بھی متاثر ہوا اور اساتذہ کی تنخواہوں میں اعلان کردہ پچاس فیصد اضافہ بھی ابھی تک ادا نہیں کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ یونیورسٹیوں کے انتظامی اخراجات میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے علاوہ نئے وظیفوں پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی بہتر سرکاری جامعات کے تدریسی عملے نے تعلیمی سلسلے کا بائیکاٹ شروع کر دیا تھا۔

Punjab University Old Campus
پاکستانی یونیورسٹیوں میں معمول کی تعلیم بری طرح متاثرتصویر: DW

دوسری جانب وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی نے اساتذہ کے احتجاج کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے ایک روز قبل یونیورسٹیوں کے لئے ایک ارب دس کروڑ کے فنڈز کی قسط جاری کی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہوتے ہیں، بجائے اس کےکہ ہم گلیوں، سڑکوں پر نکل آئیں۔ اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ سڑکوں پر آنے سے حکومت کے وسائل بڑھ تو نہیں جائیں گے۔ کئی یونیورسٹیوں میں بعض لوگوں کی تنخواہیں تو وزیروں سے بھی چار گنا زیادہ ہیں۔ ایسے میں ان کی پچاس فیصد تنخواہ کیسے بڑھا دی جائے۔ حکومت کو ہر طبقہ کے ساتھ انصاف کرنا پڑتا ہے۔‘‘

ادھر پاکستانی اساتذہ نے ملکی وزیر تعلیم کے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اساتذہ طلباء کے تعلیمی مستقبل کا خیال نہیں رکھ رہے۔ اس بارے میں اسپیشل ایجوکیشن کے شعبے کے ایک لیکچرار زاہد مجید نے کہا: ’’ہم اس بات کو بھی مد نظر رکھتے ہیں کہ طلباء کا وقت ضائع نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس عزت کے ہم حقدار ہیں، وہ اگر ہمیں ملے گی تو ہم کمرہ جماعت میں بیٹھیں گے۔ لوگوں کو تعلیم دیں گے اور پوری دنیا میں اور پاکستان میں ایک استاد کا جو وقار ہونا چاہئے، ہم اسے حاصل کریں گے۔‘‘

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر گزشتہ ماہ سرکاری جامعات کے مسائل کے حل کے لئے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو تاحال اس مسئلے کو سلجھانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں