1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وسطی افریقی جمہوریہ، چڑیلیں‘ سرعام جلائی جاتی ہیں

عاطف توقیر26 نومبر 2015

وسطی افریقی جمہوریہ میں باغی عورتوں کو اغوا کرتے ہیں اور طرح طرح کے اوہام کے حامل یہ جنونی انہیں ’چڑیلیں‘ قرار دے کر عوامی اجتماعات میں جلا ڈالتے ہیں یا زندہ دفن کر دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HCq9
Zentralafrikanische Republik Proteste und Gewalt in Bangui
تصویر: picture-alliance/AA/H.C. Serefio

شورش زدہ میں وسطی افریقی جمہوریہ میں باغیوں کے زیرقبضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی ان پامالیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک تفصیلی رپورٹ کے کچھ حصے منظر عام پر آ گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عجیب و غریب توہم پرستی کے شکار یہ باغی عورتوں کو اغوا کر کے انہیں ’چڑیلیں‘ گردان کر انہیں اذیت ناک موت سے دوچار کر دیتے ہیں۔

تھامس روئٹرز ایسوسی ایشن نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق اہلکاروں کی جانب سے مرتب کردہ اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد بتایا گیا ہے کہ اس رپورٹ میں متاثرہ خواتین کی تصاویر بھی موجود ہیں، جنہیں لکڑی کے ڈنڈوں کے ساتھ باندھ کر الاؤ پر لٹکا دیا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ انہیں اس دہکتی آگ کے قریب لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ’مذہبی رسم‘ کی بھینٹ چڑھنے والوں کو اس الاؤ میں کوئلہ بن جانے تک جلایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس بہیمانہ تشدد کے واقعات دسمبر 2014 سے لے کر رواں برس کے آغاز تک پیش آئے اور ان کے لیے مسیحی ’اینٹی بلاکا‘ ملیشیا کے رہنماؤں نے احکامات جاری کیے۔ یہ ملیشیا گروہ مسلم سلیکا باغیوں کے ساتھ گزشتہ دو برس سے برسرپیکار ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ وسطیٰ افریقی جمہوریہ میں تشدد اور مذہبی بنیادیوں پر لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا، جب مسلم باغی گروہ نے تھوڑے عرصے کے لیے اس مسیحی اکثریتی ملک کا اقتدار قبضے میں لے لیا، تاہم اس کے بعد ملک بھر میں لاقانونیت پیدا ہو گئی اور دارالحکومت بینگوئی کے باہر صرف مسلح گروہ دندنانے لگے۔

اس ملک میں بین الاقوامی حمایت سے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا انعقاد 27 دسمبر کو ہو رہا ہے، تاہم خدشات مسلسل بڑھ رہے ہیں کہ اس تمام عمل سے بھی وہاں خون ریزی میں کمی نہیں ہو گا بلکہ شاید اس میں مزید اضافہ ہو جائے۔

افریقہ بھر میں توہم پرستی، جادوٹونا اور چڑیل قرار دے کر عورتوں کا قتل ایک عمومی بات ہے، تاہم اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق لگتا یوں کہ مسیحی باغیوں نے یہ توہم پرستانہ خیالات پیسے اور طاقت کے حصول کے لیے ہر اس علاقے میں اختیار کیے، جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

رپورٹ کے مطابق، ’’وسطی افریقی جمہوریہ میں ریاستی انتظام اور قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے مسیحی ملیشیا اینٹی بلاکا نے فائدہ اٹھایا اور انصاف کا وہ طریقہ اپنایا، جو عوام میں مقبول تھا۔‘‘ اس رپورٹ مین کہا گیا ہے کہ 45 تا 70 برس کی عمر کی خواتین پر باؤرو کے علاقے کے قریب 13 حملے دیکھے گیے۔ اسی علاقے میں باغی گروپوں کے درمیان شدید لڑائی کے بعد اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی گئی تھی، تاہم وہ بھی وہاں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔