1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وفاق کے دباؤ کا نتیجہ، جرمنی سے ملک بدری کے عمل میں تیزی

عاصم سليم4 جون 2016

وفاقی جرمن وزير داخلہ نے اسی ہفتے سياسی پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کی سست رفتار ملک بدری پر تنقيد کی تھی تاہم وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بدر کيے جانے والوں کی تعداد ميں در اصل اضافہ ريکارڈ کيا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1J0V2
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Panagiotou

جرمن صوبے باويريا کی مہاجرين سے متعلق کونسل سے منسلک اسٹيفان ڈُن والڈ کے بقول ملک بدريوں کی رفتار بڑھانے کے حوالے سے سياسی دباؤ يقينی طور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتايا کہ باويريا سے ملک بدر کيے جانے والوں کی تعداد ميں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈُن والڈ کے بقول صوبائی وزير داخلہ کی کوشش ہے کہ ملک بدر کر ديے جانے والوں کی ہر ہفتے کم از کم ايک پرواز روانہ ہو۔ باويرين ريفيوجی کونسل کے اس اہلکار کے مطابق جرمن رياستيں اس سلسلے ميں اضافی وسائل بروئے کار لا رہی ہيں۔ حکام صوبے ميں ملک بدری کے اس پورے عمل ميں مصروف اہلکاروں کی تعداد ميں تقريباً ساڑھے سات سو کا اضافہ چاہتے ہيں اور اس اقدام کا مقصد ڈی پورٹ کيے جانے کے عمل ميں تيزی لانا ہی ہے۔

قبل ازيں اسی ہفتے بدھ کے روز جرمن اخبار ’بلڈ‘ ميں وزارت داخلہ کی ايک اندرونی رپورٹ کا ذکر کيا گيا تھا، جس ميں ڈے ميزيئر نے ملک بدری کے عمل ميں سست روی پر کافی تنقيد کی تھی۔ ويسے تو اس رپورٹ ميں وزير داخلہ نے تاخير کی متعدد وجوہات بيان کيں ليکن کچھ معاملات ميں انہوں نے جرمن رياستوں کو بھی قصور وار ٹھہرايا۔ بعد ازاں يہ معاملہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے مابين ايک تنازعے کی صورت اختيار کر گيا اور متعدد صوبائی حکومتوں کی جانب سے اپنے دفاع ميں جمعرات اور جمعے کے روز بيانات جاری کيے گئے۔ نارتھ رائن ويسٹ فاليا کے رالف ييگر نے پناہ کے متلاشی افراد کے آبائی ممالک کے بارے ميں کہا کہ ان کی جانب سے عدم تعاون ملک بدريوں ميں تاخير کا سبب ہے۔ اس کے علاوہ ييگر نے وفاقی جرمن حکومت کے چند ممالک کے ساتھ ملک بدريوں کے حوالے سے طے شدہ معاہدوں کو بھی ’بالکل ہی ناقابل عمل‘ قرار ديا۔

واضح رہے کہ وفاقی جرمن وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق بھی ملک بدريوں کی رفتار ميں در اصل اضافہ ہو رہا ہے۔ سال رواں کے اختتام تک يہ تعداد ساڑھے چار ہزار سے بڑھ کر ستائيس ہزار تک پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ وزارت کے اندازوں کے مطابق رضاکارانہ بنيادوں پر اپنے وطن لوٹنے والوں کی تعداد بھی سن 2015 ميں ساڑھے سينتيس ہزار تھی جو اس سال بڑھ کر اکسٹھ ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ جرمن حکومت کے اندازوں کے مطابق جرمنی ميں قريب دو لاکھ بيس ہزار افراد ايسے ہيں، جنہيں ڈی پورٹ کيا جانا ہے تاہم ان ميں سے ايک لاکھ اکسٹھ ہزار کو عارضی قيام کا پرمٹ جاری کيا جا چکا ہے۔ قانونی وجوہات کی بناء پر ديے جانے والے اس پرمٹ کی مدد سے متعلقہ مہاجرين کو فوری ملک بدری سے کچھ عرصے کے ليے نجات مل جاتی ہے۔

اندازوں کے مطابق رضاکارانہ بنيادوں پر اپنے وطن لوٹنے والوں کی تعداد بھی سن 2015 ميں ساڑھے سينتيس ہزار تھی جو اس سال بڑھ کر اکسٹھ ہزار تک پہنچ سکتی ہے
اندازوں کے مطابق رضاکارانہ بنيادوں پر اپنے وطن لوٹنے والوں کی تعداد بھی سن 2015 ميں ساڑھے سينتيس ہزار تھی جو اس سال بڑھ کر اکسٹھ ہزار تک پہنچ سکتی ہےتصویر: picture alliance/dpa/C. Charisius

جرمن دارالحکومت ميں ايک وکيل کی حيثيت سے کام کرنے والی اوڈا ينٹس کا کہنا ہے کہ ملک بدری کے عمل کو تيز رفتار بنانے کے ليے حکام کا دباؤ واضح ہے۔ تاہم انہوں نے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’حکام اب درخواستوں کا صحيح طريقے سے جائزہ تک نہيں لے رہے، بس صرف اعداد و شمار کے ليے کام ہو رہا ہے۔‘‘ خاتون وکيل نے واضح کيا کہ جرمن رياستوں کی ذمہ داری صرف يہی نہيں کہ ملک بدريوں کے حوالے سے مقرر کردہ کوٹے پورے کيے جائيں بلکہ يہ بھی ہے کہ سياسی پناہ کی ہر درخواست کا جائزہ ليتے وقت قانونی تقاضوں کو پورا کيا جائے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں