1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وولف صدر بن گئے ، عہدےکا وقار متاثر ہوا

2 جولائی 2010

کل بدھ کو جرمن دارالحکومت برلن میں منعقدہ صدارتی انتخابات کے دوران مختلف جماعتوں کے سیاستدانوں نے جس طرح سے طاقت کے کھیل میں اپنا کردار ادا کیا، اُس سے صدر کے عہدے کے وقار اور مرتبے کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔

https://p.dw.com/p/O7jP
کرسٹیان وولف بالآخر صدر بن گئےتصویر: AP

بدھ کو تیسرے مرحلے میں بالآخر حکومت کے نامزد کردہ اُمیدوار کرسٹیان وولف کو واضح اکثریت سے صدر منتخب کر لیا گیا۔ اِس عہدے پر وولف کی کامیابی پر ڈوئچے ویلے کے مارک کوخ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:

’’اگر اپنا صدر منتخب کرنے کا حق خود جرمن عوام کے پاس ہوتا تو آج جرمنی کا نیا سربراہِ مملکت کوئی اور ہوتا: جرمن شہریوں کی تین چوتھائی تعداد اپوزیشن کے صدارتی اُمیدوار یوآخم گاؤک کو صدرِ مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتی تھی۔ اب چونکہ وہ کل ہونے والی ووٹنگ میں کامیاب نہیں ہو سکے، اِس لئے جرمنوں کے عدم اطمینان اور سیاست سے بیزاری میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ جرمنی میں صدر کا انتخاب کبھی بھی سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ سے پاک نہیں رہا تاہم اِس بار سیاسی جماعتیں اِس سلسلے میں حد سے آگے نکل گئیں۔ اُنہوں نے سربراہِ مملکت سے متعلق فیصلے کو ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے ایک تکلیف دہ عمل میں تبدیل کر دیا۔ وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور مخلوط حکومت میں شامل اُن کی ساتھی جماعتوں کے رہنماؤں نے صرف اور صرف اپنی طاقت کے پیشِ نظر ایک ایسے سیاستدان کو صدارتی اُمیدوار نامزد کیا تھا، جو محض اُن کےسیاسی اور پارٹی مفادات سے مطابقت رکھتا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ بہت سے جرمن کرسٹیان وولف کو بطور سربراہِ مملکت دیکھنے کے خواہاں نہیں تھے۔ تاہم مخلوط حکومت نے اِس بات کی مطلق پرواہ نہیں کی۔

NO FLASH Bundespräsidentenwahl Bundespräsident Wulff
ڈرامائی صدارتی انتخابات: پہلے ناکامی اور پھر بالآخر کامیابی کے بعد ایوان کے بڑے حصے نے وولف کے لئے تالیاں بجائیںتصویر: AP

دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرینز کا طرزِ عمل بھی بہتر نہیں تھا۔ اگرچہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی نہ رکھنے والے پادری اور حقوقِ انسانی کے علمبردار یوآخم گاؤک کو صدارتی اُمیدوار نامزد کرنا ایک قابلِ تحسین اور شاندار فیصلہ تھا کیونکہ اِس سے یہ تاثر ملا کہ اپوزیشن سنجیدگی کے ساتھ ریاست کے اِس اعلیٰ ترین عہدے کے لئے بہترین شخصیت سامنے لانا چاہتی تھی۔ تاہم حقیقت میں گاؤک کی نامزدگی حکومتی اتحاد کی صفوں میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی۔

اب کامیابی زیادہ مضبوط جماعتوں کے اُمیدوار کو مل گئی ہے۔ کرسٹیان وولف بین الاقوامی سطح پر جرمنی کی کس طرح سے نمائندگی کرنا چاہتے ہیں اور ملک کے اندر اُن کی حکمتِ عملی کیا ہو گی، یہ بات مکمل طور پر غیر و اضح ہے۔ آئین کی رُو سے جرمنی میں صدر کا کردار ویسے بھی سیاسی طور پر کمزور اور محض ریاست کے ایک نمائندے کا ہوتا ہے۔ صدر کو پارٹی وابستگیوں سے بالاتر اور تمام شہریوں کا نمائندہ ہونا چاہئے۔ سیاسی فیصلے اُسے عملاً کبھی بھی نہیں کرنا پڑتے۔ ایسے میں یہ بات اور بھی اہم ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے تصورات عام کرے، جو روزمرہ کی عام سیاست سے بالاتر ہوں۔ عوام اپنے صدر سے مستقبل کے امکانات کے سلسلے میں رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں۔

Wahl des Bundespräsidenten 2010
صدر منتخب کرنے والی وفاقی اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظرتصویر: picture alliance / dpa

کرسٹیان وولف کے بہت سے پیشروؤں کے پاس بہرحال اِس طرح کے موضوعات تھے، مثلاً ہورسٹ کوہلر کے ہاں افریقہ مرکزی موضوع تھا تو رومان ہیرسوگ نے تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جبکہ رشارڈ فان وائتسیکر کا مرکزِ نگاہ یہ بات رہی کہ جرمن تاریخ کی جانب جرمنوں کا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے یہ صدور باوقار انداز میں جرمنی کی نمائندگی کرتے رہے۔ حتیٰ کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں ہار جانے والے اپوزیشن اُمیدوار یوآخم گاؤک کے ہاں بھی ایک موضوع بنیادی اہمیت کا حامل ہے، اور وہ ہے آزادی۔

کرسٹیان وولف کے ہاں ابھی اِس طرح کا کوئی موضوع نظر نہیں آ رہا۔ وہ بنیادی طور پر ایک پارٹی سیاستدان ہیں۔ وہ جرمن ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوئے ہیں لیکن یہ عہدہ پارٹیوں کے اندر طاقت کی کشمکش کا شکار ہوا ہے اور اِسی وجہ سے اِسے سخت نقصان بھی پہنچا ہے۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ آیا صدر کے انتخاب کا معاملہ جرمن عوام پر چھوڑ دیا جانا چاہئے کیونکہ کوئی بھی صدر ایک نڈھال کر دینے والی انتخابی مہم کے بعد آخر کیسے پورے ملک کو متحد رکھ سکتا ہے؟ زیادہ بہتر سوال یہ ہو گا کہ کیا جرمنی کو اِس عہدے کی سرے سے ضرورت بھی ہے؟‘‘

تبصرہ: مارک کوخ / امجد علی

ادارت: مقبول ملک