1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وکی لیکس: بغیر سنسر شدہ دستاویزات کیسے شائع ہو گئے

2 ستمبر 2011

جمعرات کے روز وکی لیکس کی دو لاکھ 50 ہزار امریکی سفارتی کیبلز منظر عام پر آ گئی ہیں۔ بغیر سنسر جاری کردہ یہ دستاویزات اب کئی ویب سائٹس پر ایک بڑے آن لائن ذخیرے کی مانند ہیں۔

https://p.dw.com/p/12RuR

اس سے قبل وکی لیکس سفارتی کیبلز کے اجراء کے وقت کئی پہلوؤں کا خیال رکھ رہی تھی۔ دستاویزات جاری کرتے وقت انہیں اس طرح سے سنسر کیا جاتا تھا کہ کسی بے گناہ شخص کی زندگی خطرے میں نہ پڑے تاہم خبر رساں ادارے AP کے مطابق اس بار یہ دستاویزات دیکھ کر لگتا ہے، جیسے وکی لیکس انہیں اس طرح جاری کرنا نہیں چاہتی تھی، جس طرح جاری کر دیے گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے AP کے مطابق ان دستاویزات کے یُوں شائع ہونے کے درپے بہت سے ایسے سلسلہ وار واقعات ہیں، جن کی وجہ سے وکی لیکس کی یہ دستاویزات مختلف ڈیٹا شیرنگ ویب سائٹس پر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

Buchcover Suelette Dreyfus und Julian Assange: Underground (Haffmans und Tolkemitt)
وکی لیکس بارے کئی کتب شائع ہو چکی ہیں

برطانوی اخبار گارڈین کے ایک صحافی ڈیوڈ لے کو وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج نے ان دستاویزات تک رسائی کے لیے گزشتہ برس موسم گرما میں ایک Password دیا تھا۔ صرف اُنہیں ’خفیہ الفاظ‘ کی مدد سے وکی لیکس کی بغیر سینسر دستاویزات تک رسائی ہو سکتی تھی۔

اس کے کچھ ماہ بعد وکی لیکس نے خفیہ دستاویزات کا کچھ حصہ انٹرنیٹ کے ذریعے شائع کیا تھا۔ تاہم یہ دستاویزات سنسر شدہ تھے۔ اس دوران جب ڈیوڈ لے ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے شائع کر رہے تھے، تو ایک طرف تو جولیان اسانج قانونی مسائل سے نمٹ رہے تھے اور دوسری جانب اُن کی ویب سائٹ بھی مسلسل سائبر حملوں کا شکار رہی۔

اس وقت تک ان ڈھائی لاکھ دستاویزات میں سے چند ہزار ہی عوامی سطح پر سامنے آئے تھے اور اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ کسی امریکی سفارتکار کی زندگی خطرے میں نہ پڑے۔

اس سلسلے میں «z.gpg» نامی ایک فائل بنائی گئی تھی۔ بعد میں وکی لیکس نے خفیہ دستاویزات میڈیا کے حوالے سلسلہ وار طریقے سےکی تھیں۔

فروری 2011 میں ڈیوڈ لے کی  وکی لیکس بارے ایک کتاب منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں لے نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے اسانج نے انہیں ایک Password دیا اور انہوں نے اس خفیہ آن لائن فائل کا مطالعہ کیا۔

Julian Assange Auslieferung nach Schweden
جولیان اسانجتصویر: dapd

25 اگست کو جرمن اخبار ڈیر فرائی ٹاگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ لے کی کتاب میں بتایا گیا پاس ورڈ، اب بھی کارگر ہے۔ اس مضمون میں فائل کا نام اور پاس ورڈ تو شائع نہیں کیا گیا تاہم بدھ کے روز سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر کئی پیغامات میں اس پاس ورڈ کے حوالے سے اشارے دیے جانے لگے۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد ڈیٹا شیرنگ ویب سائٹس پر یہ غیر سنسر شدہ دستاویزات دکھائی دینے لگیں اورگزشتہ روز یہ تمام خفیہ دستاویزات بآسانی دستاب ہو گئیں۔

اس حوالے سے ڈیوڈ لے کو پاس ورڈ شائع کرنے کی وجہ سے الزامات کا سامنا ہے تاہم لے نے ان لزامات کو ’بے بنیاد اور فضول‘ قرار دیا ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ ڈیٹا شیرنگ ویب سائٹس پر شائع ہونے والے دستاویزات اسانج کی جانب سے انہیں مہیا کی گئی فائل سے ماخوذ نہیں۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ ایک طرف تو وکی لیکس نے فائل جاری کی اور دوسری طرف تقریبا اسی وقت ڈیوڈ لے کی کتاب میں پاس ورڈ شائع ہوا، جس کی وجہ سے یہ خفیہ دستاویزات بغیر سنسر شدہ حالت میں عوام کے ہاتھ لگ گئیں۔

رپورٹ:  عاطف توقیر

ادارت:  عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں