1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ویت نام میں بارودی سرنگوں کی صفائی، جرمن حکومت کی امداد

1 اپریل 2011

جرمن وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ برلن حکومت ویت نام میں بارودی سرنگوں کی صفائی اور ایسے بموں کو محفوظ طریقے سے ضائع کرنے کے لیے ایک ملین ڈالر کی رقم دے گی، جو ویت نام جنگ کے دوران پھینکے گئےتاہم کسی وجہ سے پھٹے نہیں تھے۔

https://p.dw.com/p/10liQ
تصویر: AP

جرمن حکومت کی طرف سے یہ اعلان جمعہ کے دن سامنے آیا ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہےکہ مرکزی ویت نام میں اسلحے کی صفائی کا کام غیر سرکاری اداروں کی مدد سے سر انجام دیا جائے گا۔ اس حوالے سے جرمنی کا بین الاقوامی ادارہ برائے یکجہتی ISG ہنوئے حکومت کے ساتھ مل کر بنیادی کردار ادا کرے گا۔

اگرچہ ویت نام جنگ کو ختم ہوئے تیس برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن پھر بھی اس جنگ کے دوران وہاں بمباری کے علاوہ جو باوردی سرنگیں بچھائی گئی تھیں، ان سے ابھی تک ویت نام کے شہریوں کو خطرات لاحق ہیں۔

B-52
امریکی جنگی طیارہ B-52 ویت نام پر بمباری کے دوران، نومبر 1965ءتصویر: AP

ویت نام میں بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے گزشتہ تیرہ برسوں کے دوران جرمن حکومت 8.5 ملین یورو کی رقم خرچ کر چکی ہے۔ اس عرصے کے دوران ویت نام میں پندرہ سو ہیکٹر کا علاقہ صاف کر کے اسے نہ صرف قابل اراضی بنایا گیا بلکہ وہاں کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔

جرمنی کے بین الاقوامی ادارہ برائے یکجہتی ISG نے اس دوران ایسے لوگوں کی بحالی کے لیے بھی غیر معمولی منصوبہ جات چلائے، جو جنگ کے دوران معذور ہوگئے تھے۔

ہنوئے حکومت کےاعداد وشمار کے مطابق ویت نام جنگ کے دوران امریکی افواج نے وہاں پندرہ ملین ٹن کے قریب بم گرائے تھے، جن میں سے قریب دس فیصد موقع پر نہیں پھٹے تھے۔ ویت نام پر زیادہ تر بمباری ہمسایہ ملک کمبوڈیا کی سرحد کے قریب کی گئی تھی تاکہ ویت نامی فورسز کے لیےفوجی رسد روکی جا سکے۔ اب بھی ان علاقوں میں یہ بم دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے تباہ کن ہیں۔

1975ء میں ویت نام جنگ ختم ہوئی تھی اور اس کے بعد سے ویت نام اور کمبوڈیا میں اب تک قریب ایک لاکھ افراد اسی بارودی مواد کے پھٹنے کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف ویت نام میں ہر سال کم ازکم ایک سو افراد بارودی سرنگوں کے پھٹنے کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: عدنان اسحاق