1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يمنی صدر صالح اقتدار منتقل کرنے پر تيار

23 نومبر 2011

کئی ماہ کے ہنگاموں کے بعد يمنی صدرصالح اقتدار نائب صدر کو منتقل کرنے پر تيار ہو گئے ہيں۔ اس کے ليے وہ خليجی تعاون کونسل کی وساطت سے طے پانے والے ايک سمجھوتے پر دستخط کرنے سعودی عرب کے دارالحکومت پہنچ چکے ہيں۔

https://p.dw.com/p/13FWb
صدر علی عبداللہ صالح
صدر علی عبداللہ صالحتصویر: AP

يمنی صدر علی عبداللہ صالح اقتدار کی منتقلی کے ايک معاہدے پر دستخط کرنے کے ليے آج سعودی عرب کے دارالحکومت رياض پہنچ گئے ہيں۔ يمن کی سرکاری خبر ايجنسی سبا نے اطلاع دی ہے کہ صالح سعودی حکومت کی دعوت پر وہاں پہنچے ہيں، جہاں وہ خليجی ممالک کے تجويز کردہ سمجھوتے پر دستخط کريں گے۔

خليج کے سات ممالک پر مشتمل خليجی تعاون کونسل نے يمن ميں اقتدار کی منتقلی کا سمجھوتہ اقوام متحدہ کے نمائندے جمال بن عمرکی مدد سے تيار کيا ہے۔ بن عمر کو اس سلسلے ميں امريکہ اوريورپی يونين سے بھی مدد ملی ہے۔ جمال بن عمر نے کہا: ’’سمجھوتے ميں تفصيل سے اُن تمام مراحل کا ذکر کيا گيا ہے، جو اقتدار کی منتقلی کے دوران پيش آئيں گے۔ ان ميں قومی اتحاد کی حکومت اور ايک فوجی کميشن کا قيام بھی شامل ہے، جو تشدد کو ختم کرتے ہوئے ملک ميں پھيلے ہوئے مليشيا گروپوں اور فوج کے درميان اختلافات دور کرے گا۔ ملک کو درپيش چيلنجوں کے ليے ايک قومی مکالمتی فورم بنايا جائے گا اور يمن کے مستقبل کی راہ متعين کی جائے گی۔‘‘

يمنی دارالحکومت صنعا ميں صدر صالح کے خلاف ايک مظاہرہ
يمنی دارالحکومت صنعا ميں صدر صالح کے خلاف ايک مظاہرہتصویر: DW

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے يمن جمال بن عمر نے کہا کہ سمجھوتے کو آخری شکل دينے کے کام کی وجہ سے اس پر دستخط ميں کچھ دير ہو گئی ہے۔ اپوزيشن اور صدر صالح دونوں اس پر دستخط کريں گے۔ صدر صالح اس سے پہلے اسی سمجھوتے کی مختلف اشکال پر دستخط کرنے سے تين مرتبہ پيچھے ہٹ چکے ہيں۔

اس معاہدے کے مطابق وہ تمام اختيارات نائب صدر منصور ہادی کو منتقل کر ديں گے، جو اپوزيشن سے مل کر ايک نئی حکومت بنائيں گے اور تين ماہ کے اندر نئے انتخابات کرائے جائيں گے۔ سياسی ذرائع کا کہنا ہے کہ صالح 90 دنوں تک کے ليے اعزازی صدر رہيں گے، جس کے بعد ہادی کو متفقہ طور پر دوسال کی عبوری مدت کے ليے صدر چنا جائے گا۔ عبوری مدت کے دوران صالح کوئی سياسی فيصلے نہيں کر سکيں گے اور نہ ہی اُنہيں ہادی کے فيصلوں کو ويٹو کرنے کا اختيار ہو گا۔

آج يمن کے دارالحکومت صنعا ميں ہزاروں افراد نے صدر عبداللہ صالح کو معافی دينے کے خلاف مظاہرے کيے۔ تیل برآمد کرنے والے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی سرحد پر واقع يمن ميں خانہ جنگی کا بھی خطرہ ہے۔ امريکہ نے القاعدہ کے خلاف جنگ ميں لمبے عرصے تک صدر صالح کی حمايت کی ہے، ليکن حال ہی ميں وہ اس سے دستبردار ہو گيا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں