1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يمن سے امريکی سفارتکاروں کے انخلاء کا فيصلہ

26 مئی 2011

امريکہ نے اعلان کيا ہے کہ وہ يمن ميں امريکی سفارتی عملے کے اہل و عيال اور بعض ايسے اہلکاروں کو واپس بلا رہا ہے جن کی وہاں اشد ضرورت نہيں ہے۔

https://p.dw.com/p/11OLK
يمنی دار الحکومت صنعاء ميں مظاہرين
يمنی دار الحکومت صنعاء ميں مظاہرينتصویر: dapd

امريکی وزارت خارجہ نے يہ اعلان يمنی صدر عبداللہ صالح سے اقتدار سے دستبردار ہونے کے جاری مطالبات اور سکيورٹی فورسز اور باغی قبائليوں کے درميان شديد لڑائی کے نتيجے ميں دارالحکومت صنعاء کا ہوائی اڈہ بند ہو جانے کے بعد کيا ہے۔

امريکی وزارت خارجہ کے اس اعلان ميں امريکی شہريوں کو خبردار کيا گيا ہے کہ يمن ميں دہشت گردانہ سرگرميوں اور شہری بد امنی کی وجہ سے امن و امان اور سکيورٹی کو شديد خطرات لاحق ہيں۔ اعلان ميں امريکی شہريوں سے کہا گيا ہے کہ وہ يمن نہ جائيں اور جو امريکی اس وقت يمن ميں ہيں، وہ جب تک ٹرانسپورٹ کی سہو ليات موجود ہيں، اُن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک چھوڑ ديں۔

تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امريکہ يمن ميں سياسی تعطل اورخونريزی کو بڑھتی ہوئی فکر اور ايک طرح سے بے کسی کی حالت ميں ديکھ رہا ہے۔ اُسے اس پر بھی فکر ہے کہ يمن ميں طاقت کے بڑھتے ہوئے خلا کو القاعدہ کے دہشت گرد پُر کر سکتے ہيں۔

صنعاء ميں چيک پوائنٹ پر فوجی
صنعاء ميں چيک پوائنٹ پر فوجیتصویر: AP

امريکی صدر اوباما نے کل بدھ کو يمن کے صدر علی عبداللہ صالح سےمطالبہ کيا کہ وہ سعودی عرب اور خليج کے عرب ممالک کے ساتھ کيے گئے اپنے اُس سمجھوتے کی فوری پابندی کريں، جس کے مطابق انہيں 30 دن کے اندر اقتدار سے دستبردار ہونا ہے۔ ليکن صدر صالح نے اس سمجھوتے پر دستخط کرنے کے چند دن بعد ہی يہ ظاہر کر ديا ہے کہ وہ اس پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہيں رکھتے۔ يمن ميں حکومت مخالف قبائليوں اور سکيورٹی فورسز کے درميان گھمسان کی لڑائی ميں اب تک بھاری جانی نقصان بھی ہو چکا ہے۔

سی آئی اے کے ايک سابق افسر اوراس وقت بروکنگز انسٹيٹيوٹ ميں دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہر بروس ريڈل نے کہا ہے کہ يہ امريکہ اوريورپی ممالک کے مفادات کا شديد تقاضا ہے کہ جزيرہ نمائے عرب کے سب سے زيادہ آبادی والے ملک يمن کو ٹوٹنے سے بچايا جائے۔ ريڈل نے خبر ايجنسی اے ايف پی کے ساتھ ايک ای ميل انٹرويو ميں کہا کہ يمن ميں انتشار سے صرف القاعدہ اور شدت پسند گروپوں کو فائدہ پہنچے گا۔ ليکن ريڈل نے يہ بھی کہا کہ واشنگٹن صدر صالح کو اقتدار سے ہٹانے اور جمہوريت کی راہ ہموار کرنے کے سلسلے ميں لاچار ہے۔

يمن کے ايک طاقتور قبيلے کے سردار ايک حکومت مخالف پوليس افسر کے ساتھ
يمن کے ايک طاقتور قبيلے کے سردار ايک حکومت مخالف پوليس افسر کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa

امريکی وزارت خارجہ کے ايک سينئر افسر نے کہا کہ امريکہ يمن کو ترقی اور فوج کے ليے 300 ملين ڈالرسالانہ کی جو امداد ديتا ہے اسے يمنی صدر پر دباؤ ڈالنے کے ليے استعمال کيا جا سکتا ہے ليکن فی الحال اس کا امکان نہيں ہے۔ وزارت خارجہ کے اس افسر نے کہا کہ ’’فی الحال ہم صدر صالح سے براہ راست بات چيت جاری رکھنے اوران کو اس کا قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہيں کہ اُنہيں وہی کرنا چاہيے جو اُن کے عوام کے ليے بہتر ہو۔‘‘

عالمی امن کی کارنيگی فاؤنڈيشن کے ايک تجزيہ نگار کرسٹوفر بيوک نے کہا کہ امريکہ کے پاس يمن کے حالات پر اثر ڈالنے کے ليے بہت کم مواقع ہيں۔ ليکن انہوں نے يہ بھی کہا کہ امريکہ نے ابھی تک ايسا کوئی بالکل واضح اور طاقتور پيغام نہيں بھيجا ہے کہ صدر صالح کو اقتدار سے ہٹ ہی جانا چاہيے اور امريکی قيادت کے پاس اب بھی اس کے ليے طاقت اور اخلاقی قوت ہے۔ مجموعی طور پر امريکہ، مغربی اتحادی اور سعودی عرب مل کر خاصا دباؤ ڈال سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ جتنی زيادہ ديرتک يہ صورتحال جاری رہے گی، يمن اتنا ہی زيادہ غير مستحکم ہوتا جائے گا۔ يمنی حکومت اس وقت صرف بر سر اقتدار رہنے ميں دلچسپی لے رہی ہے اور اُسے القاعدہ اور دہشت گردی کی اتنی فکر نہيں ہے۔

ليکن امريکی وزارت خارجہ کے ايک ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے کہ ان کے خيال ميں دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں يمنی حکومت کے ساتھ امريکہ کا تعاون جاری ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں