1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورو زون کے دو بڑوں اور اطالوی وزير اعظم کی ملاقات

25 نومبر 2011

يورو زون کے ممالک کے قرضوں کا بحران مسلسل زيادہ شديد ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر قابو پانے کے طريقوں کے سلسلے ميں بھی خطے کے اہم ملکوں اور رہنماؤں کے درميان بعض بہت بنيادی نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/13H7M
يورو زون کے دو بڑے، جرمن چانسلر ميرکل اور فرانسيسی صدر سارکوزی
يورو زون کے دو بڑے، جرمن چانسلر ميرکل اور فرانسيسی صدر سارکوزیتصویر: dapd

کل جمعرات کی شام يورو زون کے تين سب سے اہم رکن ملکوں کے سربراہان نے آپس میں ملاقات کی ليکن یہ ملاقات بھی اميد کی کوئی نئی کرن پيدا نہ کر سکی۔

جمعرات 24 نومبر کو فرانس کے شہر اسٹراس بُرگ ميں يورو زون کے تين سب سے بڑے ملکوں جرمنی، فرانس اور اٹلی کے سربراہان کی ملاقات اُس ’اجتماعی طريقہء کار‘ کی کوئی مثال نہيں کہلا سکتی جس کا ذکر دن رات يورپی کميشن اور يورپی پارليمان کی طرف سے کيا جاتا ہے۔ اسٹراس بُرگ کی فضا کچھ يوں تھی کہ جيسے يورو زون کے دو بڑوں، جرمن چانسلر انگيلا ميرکل اور فرانسيسی صدر نکولا سارکوزی کے روبرو قرضوں کے شديد بحران کی لپيٹ ميں آئے ہوئے يورو زون کے ملک اٹلی کے وزير اعظم ماريو مونٹی کی پيشی ہو۔

ميرکل اور سارکوزی نے مونٹی سے کہا کہ وہ وضاحت کريں کہ اُن کی حکومت کا اصلاحاتی پروگرام کيا ہے۔ اس طرح يہ تينوں سربراہان کے درميان کوئی برابری کی سطح کی ملاقات نہيں تھی بلکہ اس ملاقات ميں اطالوی وزيراعظم مونٹی کی حيثيت جرمن چانسلر ميرکل اور فرانسيسی صدر سارکوزی کے سامنے ايک غريب اور مسکين کی سی تھی۔

سارکوزی اور اطالوی وزير اعظم مونٹی
سارکوزی اور اطالوی وزير اعظم مونٹیتصویر: dapd

يورو بحران اب اپنے آخری معرکے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ حکومتی سربراہان اور يورپی رہنماؤں کے اعصاب پر شديد دباؤ ہے اور اہم افراد ابھی تک مختلف سمتوں ميں جا رہے ہيں: يورپی کميشن کے صدر باروسو اجتماعی يورو بانڈز کا مطالبہ کر رہے ہيں اور ميرکل ایسے بانڈز کی شديد مخالف ہيں۔ خاص طور پر يورو زون کے جنوبی ملک يہ چاہتے ہيں کہ يورپی مرکزی بينک ہنگامی اقدام کے طور پر اُن کے رياستی بانڈز غير محدود تعداد ميں خريدے تاکہ قرضوں کو اجتماعی شکل دی جا سکے اور یورو زون کے بہت زيادہ مقروض ملکوں کے لیے آسانی پيدا ہو سکے۔ ليکن جرمن حکومت اس کے بھی خلاف ہے۔

يورپی کميشن کے صدر باروسو
يورپی کميشن کے صدر باروسوتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

جرمن چانسلر ميرکل کے ليے يہ بات مزيد پريشانی کا باعث ہے کہ ہمسايہ ملک فرانس کی طرف سے بھی کافی مختلف اشارے مل رہے ہيں، جو اپنی روايات اور ذہنيت کے لحاظ سے ويسے بھی شمالی يورپ کے بجائے جنوبی يورپ کے زيادہ قريب ہے۔ اس دوران صورتحال اور بھی مشکل ہو گئی ہے: کھلی مالياتی منڈيوں ميں قرضے لينے کے ليے اچھی ساکھ کی فکر اب صرف فرانس ہی کو نہيں، بلکہ خود جرمنی بھی دباؤ ميں آتا جا رہا ہے۔ حال ہی ميں جب جرمنی نے اپنے دس سالہ مدت والے رياستی بانڈز جاری کيے، تو ان کواُس طرح ہاتھوں ہاتھ نہيں ليا گيا جيسے پہلے ہوتا تھا: ان ميں سے ايک تہائی فروخت نہيں ہو سکے۔ يونان يا اسپين کے، بعض دوسروں کی مصيبت پر خوش ہونے والے تبصرہ نگاروں کو يہ فکر بھی ہے کہ معاملات کہيں بالکل ہی قابو سے باہر نہ ہو جائيں۔

حقيقت يہ ہے کہ يورو زون کے مالیاتی استحکام کی اب تک کی تمام کوششيں ناکام ہو چکی ہيں: نہ تو بچتی پروگرام، نہ ہی حکومتوں کی تبديلی اور نہ ہی کوئی امدادی پيکج کارگر ثابت ہو سکے ہيں۔

تبصرہ: کرسٹوف ہاسل باخ، برسلز

ترجمہ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک