1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپی يونين کی نئی خارجہ سروس

9 دسمبر 2010

يورپی يونين نے اپنی ايک يورپين ايکسٹرنل ايکشن سروس شروع کر دی ہے۔ اس سروس نے یکم دسمبر سے اپنے کام کا آغاز کر ديا ہے۔ اس کا مقصد دنيا ميں يورپ کی ساکھ اور وزن ميں اضافہ کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/QRhW
تصویر: AP

کوئی ايک سال پہلے نئے لزبن معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ آئندہ خارجہ امور ميں يورپی يونين کی مشترکہ نمائندگی ہو گی۔ ان امور کی ذمہ دار کيتھرين ايشٹن ہيں۔ اس کے علاوہ يونين کے رکن ممالک نے اس پر اتفاق کر ليا تھا کہ ايک خارجہ سروس قائم کی جائے۔ اس کا مقصد يورپ کی ايک مشترکہ خارجہ پاليسی تشکيل دينا ہے تاہم يورپی يونين کے رکن ملکوں کی قومی خارجہ وزارتيں بھی حسب معمول اپنا کام جاری رکھيں گی۔

اب تک يورپ کے خارجہ امور کے شعبے ميں سخت تنازعات پائے جاتے تھے۔ اس پر شديد بحثيں ہوتی تھيں کہ يورپی يونين کے مختلف رکن ممالک کو کتنا اثر حاصل ہونا چاہيے، اس سے متعلقہ ادارے کی ساخت کيسی ہونی چاہيے اور يہ کہ کس کو اہم ترين عہدے ديے جائيں۔ کيتھرين ايشٹن کا کہنا ہے کہ يورپی خارجہ سروس، تمام تر اختلافات کے باوجود کئی فوائد کی حامل ہے:

’’اس سروس کے وجود ميں آنے کے بعد ہمارے لئے يہ ممکن ہو گيا ہے کہ 27 رکن ممالک ایک ساتھ کام کر سکيں۔ ہم دنيا کو در پيش اہم مسائل کے حل مل جل کر تلاش کرنا چاہتے ہيں۔ اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ ہم خارجہ سياست کے ميدان ميں يورپی يونين کے رکن ممالک سے کچھ چھين لينا چاہتے ہيں بلکہ مقصد يہ ہے کہ جب 27 ممالک ايک ساتھ کام کريں گے تو اس کی اہميت ميں اضافہ ہوگا۔‘‘

Europa Reform Vertrag tritt in Kraft 1. Dezember 2009
ہم دنيا کو در پيش اہم مسائل کے حل مل جل کر تلاش کرنا چاہتے ہيں،کيتھرين ايشتصویر: AP

لمبی مدت کے اعتبار سے يورپی خارجہ سروس کے کارکنوں کی تعداد تقريباً 7000 ہوگی۔ يہ سروس، جس کا صدر دفتر برسلز ميں ہوگا، وزارت خارجہ کی روایتی ذمہ دارياں پوری کرے گی۔ دنيا بھر ميں اس کے 100 سے زائد سفارت خانے ہوں گے، جن ميں يورپ کی نمائندگی کی جائے گی۔ جرمن وزير خارجہ گيڈو ويسٹر ويلے نے کہا کہ اس سروس کا آغاز يورپی سفارت کاری کے لئے ايک اچھی خبر ہے:’’يورپ کو عالمی بحرانوں کی صورت ميں سرگرم ہونا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ پہلے درجے ميں يہ سفارتی اقدام ہو گا۔ اس لئے يورپی خارجہ سروس ہمارے لئے اس قدر اہم ہے۔‘‘

يورپی يونين کے بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے نمائندے فیرہوف سٹڈ کا تو يہ کہنا ہے کہ يورپی خارجہ سياست کا حقيقی وقت اب آيا ہے۔ انہوں نے کہا، حقيقت يہ ہے کہ اب تک يورپی يونين کی کوئی مشترکہ خارجہ پاليسی نہيں تھی۔ فیرہوف سٹڈ نےکہا، انہيں ياد ہے کہ عراق کی جنگ کے موقع پر يورپی سطح پر صرف 50 سيکنڈ کے لئے غورکيا گیا تھا۔ يورپ اُس وقت اس موضوع پر بحث تک کے قابل نہيں تھا، کجا يہ کہ وہ ايک مشترکہ موقف اختيار کرتا۔

يورپی خارجہ سروس کی واضح تشکيل کے بارے ميں طویل کشمکش کا نتيجہ يہ ہے کہ يہ ادارہ ايک طرف تو يورپی يونين کے احکامات کا پابند ہے اور دوسری طرف اسے يونين کے انفرادی رکن ممالک کی بات بھی ماننا ہو گی۔ تاہم ايک جغرافيائی کوٹے کو رد کر ديا گيا ہے اور يورپی خارجہ سروس کے کارکنوں کا انتخاب صرف اُن کی اہليت اور قابليت کی بنياد پر کيا جاتا ہے۔ جرمنی کو نئی يورپی خارجہ سروس ميں کم ازکم دو اہم عہدے حاصل ہیں۔ سابق وزرائے خارجہ، کنکل اور فشر کی مشير ہيلگا شمٹ اس سروس کی سیکریٹری جنرل ہوں گی۔ يورپی خارجہ سروس کے بيجنگ کے دفتر کے سربراہ بھی ايک جرمن، ايڈرر ہوں گے۔

Tag der offenen Tür bei den EU-Institutionen
دنيا بھر ميں اس کے 100 سے زائد سفارت خانے ہوں گے، جن ميں يورپ کی نمائندگی کی جائے گیتصویر: picture-alliance / dpa

تاہم خارجہ سروس کی قائد کيتھرين ايشٹن پر يہ تنقيد کی جا رہی ہے کہ ان کا اميج بہت پھيکا اور بے رنگ ہے اور وہ اس ميدان کی کوئی آزمودہ کھلاڑی نہيں ہيں۔گرين پارٹی کی يورپی يونين کی نمائندہ فرانسسکا برانڈنر نےکہا:’’نئی يورپی سروس کو ايک ايسی خاتون کی ضرورت ہے، جو بحرانوں سے بچاؤکے لئے اور قوم پرستانہ انانيت کے خلاف جم کر لڑنا جانتی ہوں۔‘‘

يہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئی يورپی خارجہ سروس شروع ہی ميں لڑکھڑا رہی ہے اور کيتھرين ايشٹن اور اُن کی ٹيم کو ابھی اپنی صلاحيتوں کا ثبوت پيش کرنا ہے، شايد اس کا وقت کسی اگلے بحران کے موقع پر آئے گا۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی