1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپ ميں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے

عاصم سلیم
30 نومبر 2017

ايک امريکی تھنک ٹينک نے پيشن گوئی کی ہے کہ يورپ ميں مسلمانوں کی تعداد مستقبل ميں بڑھے گی۔ ہجرت کو شامل کیے بغير ہی امکان ہے کہ يورپ کی مجموعی آبادی ميں اس صدی کے وسط تک مسلمانوں کی شرح 7.4 فيصد ہو گی۔

https://p.dw.com/p/2oWVn
Ramadan in Sizilien
تصویر: DW/D.Cupolo

امکان ہے کہ اس صدی کے وسط تک يورپ ميں مسلمانوں کی آبادی ميں تقريباً دو گنا اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتيجے ميں مسلمانوں کی تعداد اس براعظم کی مجموعی آبادی ميں دس فيصد ہو سکتی ہے۔ يہ انکشاف امريکا کے معتبر پيو ريسرچ سينٹر نے اپنی ايک تازہ تحقيق ميں کيا ہے۔ يورپ ميں پچھلے چند برسوں کے دوران مسلمان ممالک سے لاکھوں پناہ گزينوں کی آمد کے تناظر ميں قوی امکانات ہيں کہ يہ انکشاف اميگريشن کے موضوع پر ايک نئی بحث کا سبب بن سکتا ہے۔

يورپ ميں مسلمانوں کی آبادی ميں اضافے کی پيشن گوئی آبادی ميں معمول کے اضافے، مہاجرين کی آمد اور اعلی تعليم اور ملازمت کے ليے ہونے والی اميگريشن کی بنياد پر کی گئی ہے۔ تحقيق کے مطابق اگر يورپ کی طرف ہونے والی غير قانونی ہجرت فوری طور پر رک جائے، تو پھر بھی مسلمانوں کی  آبادی ميں اضافے کا امکان ہے اور يہ سن 2050 تک یہ  7.4 فيصد تک پہنچ چائے گی۔ يورپ ميں 2016ء ميں مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا 4.9 فيصد بنتی تھی۔ بالخصوص جرمنی پر نظر ڈالی جائے، تو يہاں پچھلے سال مسلمانوں کی شرح چھ فيصد تھی جو سن 2050 تک نو فيصد تک پہنچ سکتی  ہے۔

تاہم پيو ريسرچ سينٹر نے يہ بھی واضح کيا ہے کہ يہ اعداد و شمار محض پيشن گوئيوں پر مبنی ہيں اور حقيقی طور پر بہت سے عناصر ہيں جو يورپی براعظم ميں آبادی اور اس ميں مسلمانوں کی شرح کو متاثر کريں گے۔ ان ميں افريقہ اور ايشيا ميں سلامتی و سياسی استحام کی صورتحال، اقتصادی پاليسياں اور يورپ حکومتوں کی پاليسياں شامل ہيں۔

سن 2010 سے لے کر سن 2016 کے درميان مجموعی طور پر سات ملين تارکين وطن اور مہاجرين يورپ پہنچے، جن ميں مسلمانوں کی تعداد 3.7 ملين تھی۔ ان سات ملين ميں پناہ گزينوں کی تعداد صرف 1.6 ملين تھی اور ان ميں 1.3 ملين شام، عراق، افغانستان اور ديگر ملکوں کے مسلمان تھے۔ جرمنی ميں سن 2010 سے لے کر سن 2016 کے درميان 670,000 پناہ گزينوں کی آمد ريکارڈ کی گئی، جن ميں سے چھياسی فيصد مسلم تھے۔