1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کيوں جنگ زدہ ممالک واپسی کا سوچ رہے ہيں؟

عاصم سليم3 اگست 2016

يورپی يونين کے رکن ملک يونان ميں ہزاروں پناہ گزين کيمپوں کے ابتر حالات، کھانے کے ناقص معيار اور بالخصوص سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ميں تاخير سے کافی پريشان ہيں۔

https://p.dw.com/p/1Jalt
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

اگر مصطفیٰ قبل از وقت اس بات سے واقف ہوتا کہ ايک مہاجر کيمپ ميں اسے کس طرح کا وقت گزارنا پڑے گا تو وہ کبھی شام چھوڑنے کا فيصلہ نہيں کرتا۔ اپنی سياسی پناہ کی درخواست پر کارروائی کے ليے انتظار کرتے ہوئے يونانی دارالحکومت ايتھنز کی بندر گاہ پر ايک ٹوٹے پھوٹے کيمپ ميں صرف چار ماہ کے قيام نے اس کی آنکھيں کھول ديں اور اب وہ حلب چھوڑنے کے فيصلے پر پچھتاتا ہے۔ ’’کہيں بھی اور کچھ بھی اس سے تو بہتر ہے،‘‘ کہتے وقت اس کی آنکھيں بھر آئيں۔

اڑتيس سالہ مصطفیٰ ان دنوں اپنی سينتيس سالہ اہليہ ناديہ کے ہم راہ ايتھنز ميں ايک ٹوٹے پھوٹے کيمپ ميں گزر بسر کر رہا ہے۔ يہ دونوں اپنا سبھی کچھ شام چھوڑ آئے ہيں۔ خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے بات چيت کرتے ہوئے مصطفیٰ نے بتايا، ’’ہميں يہ نہيں معلوم تھا کہ ہميں يہاں اتنا وقت گزارنا پڑ سکتا ہے۔ سياسی پناہ کے حصول کے ليے ابھی تک تو ہمارا ابتدائی انٹرويو بھی نہيں ہوا ہے۔‘‘ اس کے بہ قول متعلقہ حکام متعدد مرتبہ تاخير کا انتباہ کر چکے ہيں اور يوں تو انہيں کئی سال لگ سکتے ہيں۔ مصطفیٰ نے افسردہ انداز ميں کہا، ’’کبھی کبھی ميرا دل چاہتا ہے کہ ميں اپنی اہليہ کا ہاتھ پکڑوں اور سمندر کی طرف چل دُوں۔‘‘

شام، عراق، افغانستان اور پاکستان کے علاوہ کئی شمالی افريقی ملکوں سے گزشتہ برس لاکھوں مہاجرين يونان کے راستے يورپی يونين ميں داخل ہوئے۔ يہ پناہ گزين جنگ و جدل، غربت، پر تشدد واقعات اور متعدد ديگر وجوہات کی بناء پر اپنے اپنے ممالک چھوڑ کر آئے تھے۔ پھر رواں سال مارچ ميں ترکی اور يورپی يونين کے مابين طے پانے والے متنازعہ معاہدے اور بلقان خطے کے کئی ملکوں کی طرف سے سخت سرحدی اقدامات کے نفاذ کے بعد سے اس روٹ کے ذريعے آمد ميں کمی تو ضرور آئی تاہم يہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہيں ہو سکا۔ سن 2016 ميں اب تک قريب 160,000 مہاجرين يونان پہنچ چکے ہيں اور يہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

يورپی يونين ميں سياسی پناہ کے حصول کے ليے يونان ميں مہاجرين کو ’ايزو‘ (EASO) نامی مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس نظام تلے درخواست دہندگان کو يونان ہی ميں دو انٹرويو دينے پڑتے ہيں، جن کے بيچ ميں کچھ ماہ کا وقفہ ممکن ہے۔ بعد ازاں دو مزيد انٹرويو اس ملک ميں ہوتے ہيں، جہاں درخواست دہندگان پناہ کے متلاشی ہوں۔ ان درخوستوں پر کارروائی کے دورانيے کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ درخواست دہندگان کس ملک ميں پناہ چاہتے ہيں۔ کچھ ملکوں ميں کارروائی مقابلتا تيز ہے، تو کہيں سست رفتار۔ پورے مرحلے ميں چند ماہ سے لے کر چند سال تک لگ سکتے ہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ جو مہاجرين مارچ کے وسط ميں طے پانے والی يورپی يونين اور ترکی کے معاہدے کے اطلاق کے بعد يونان پہنچ رہے ہيں انہيں تو اور بھی زيادہ تاخير کا سامنا ہے کيوں کہ بلاک کے رکن ممالک پہلے کی درخواستوں پر کام کر رہے ہيں اور اب تازہ درخواستوں کے حوالے سے کافی محتاط رويہ اختيار کر چکے ہيں۔

سن 2016 ميں اب تک قريب 160,000 مہاجرين يونان پہنچ چکے ہيں اور يہ سلسلہ اب بھی جاری ہے
سن 2016 ميں اب تک قريب 160,000 مہاجرين يونان پہنچ چکے ہيں اور يہ سلسلہ اب بھی جاری ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannakouris

’بہتر تھا ہم شام میں ہوتے‘

اڑتيس سالہ شامی پناہ گزين ماہا اپنے تين بچوں کے ہمراہ فروری ميں يونان پہنچی تھی۔ وہ اب تک تين مختلف مہاجر کيمپوں ميں وقت گزار چکی ہے اور ان دنوں ايتھنز کے جس کيمپ ميں رہ رہی ہے وہ قريب ڈيڑھ ہزار تارکين وطن کا گھر ہے۔ ماہا کا کہنا ہے، ’’ری لوکيشن کا مرحلہ اس قدر سست رفتار ہے کہ اس سے تو بہتر يہی تھا کہ ہم شام ميں ہوتے۔ وہاں زندگی اس سے تو آسان ہے۔‘‘ ماہا نے ’ايزو‘ (EASO) کے تحت مارچ ميں اندراج کرايا تھا ليکن اب تک اسے پہلے انٹرويو پر بھی نہيں بلايا گيا ہے۔

ماہا اور ديگر کئی مہاجرين کو شکايت صرف سياسی پناہ کے مرحلے ميں تاخير سے نہيں بلکہ روز مرہ کی زندگی کے ايسے بہت سے پہلو ہيں، جن سے مہاجرين نالاں نظر آتے ہيں۔ کئی کيمپوں ميں ديے جانے والے کھانے سے بالکل مطمئن نہيں، تو قريب سب ہی کو خستہ حال کيمپوں سے شکايت ہے۔ علاوہ ازيں يہ تو ان مہاجرين کی حالت ہے جو باقاعدہ سرکاری کيمپوں ميں رہ رہے ہيں، مہاجرين کی ايک بڑی اکثريت ايتھنز کی سڑکوں پر وقت گزارتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید