1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يونان: مہاجربچوں کے ليے تعليم، سمندر ميں قطرے کے برابر

عاصم سليم5 جولائی 2016

يونان ميں تقريباً ساڑھے آٹھ ہزار مہاجر بچوں کو سال رواں ستمبر سے تعليم فراہم کی جائے گی۔ ہزارہا بچوں کو اسکول کے ليے تيار کرنے کے ليے اس بار انہيں گرميوں کی چھٹياں نہيں دی جائيں گی۔

https://p.dw.com/p/1JJC8
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Rassloff

يونان کے شہر سکارمانگاس ميں قائم ايک مہاجر کيمپ ميں چھ سے سات برس کے بچے بڑی دلچسپی کے ساتھ انگريزی زبان ميں ’اے، بی، سی‘ سيکھ رہے ہيں۔ ايک شپنگ کنٹينر ميں قائم اس کلاس ميں موجود تمام بچوں کو اس بار موسم گرما کی سالانہ چھٹياں نہيں مليں گی جس کی وجہ يہ ہے کہ ان بچوں کا کافی وقت ضائع ہو چکا ہے اور اب انہيں اسکول کے ليے تياری کرنی ہے۔

سکارمانگاس کے اس کيمپ ميں چھ سے تيرہ برس کی عمروں کے تقريباً ساڑھے چھ سو سے زائد بچے تعليم حاصل کرتے ہيں اور ان کے اساتذہ تقريباً بيس بالغ مہاجرين ہيں۔ بچوں کی جماعت کو ايک نوجوان شامی انجينيئر پڑھاتے ہيں۔ کيمپ ميں اکثريتی طور پر شامی، افغان اور عراقی کُرد آباد ہيں اور نصف سے زيادہ کی عمريں سترہ برس سے کم ہيں۔ بچوں کو تعليم دو مختلف کنٹينرز ميں ہفتے ميں صرف ايک بار دو گھنٹوں کے ليے دی جاتی ہے۔ اساتذہ عربی، دری، کرد و انگريزی زبان ميں بچوں کو تعليم فراہم کرتے ہيں۔

شامی انجينيئر اور استاد بازل شريف کے بقول يہ ’سمندر ميں ايک قطرے‘ کے برابر ہے تاہم کم از کم ايک آغاز ضرور ہے جس کی مدد سے بچے ايک معمول کی زندگی بسر کرنے کے قريب تر ہو سکتے ہيں۔ بازل کے بقول بچوں کا اسکول اور تعليمی نظام کے ساتھ تعلق جوڑنا اہم ہے۔

سکارمانگاس کے کيمپ ميں اسکول شروع کرنے والے شامی لوئے کومان البابل کا کہنا ہے کہ جماعت ميں شامل کئی آٹھ اور دس سال تک کے بچوں کو يہ تک نہيں آتا کہ قلم کس طرح پکڑا جاتا ہے۔ غير سرکاری تنظيم ’سيو دا چلڈرن‘ خبردار کر چکی ہے کہ شام ميں ايک پوری کی پوری نسل کے کھو جانے کا خطرہ موجود ہے۔ مہاجر کيمپوں ميں مقيم ہزارہا بچے کئی کئی سال سے اسکول نہيں جا سکے ہيں۔ اسکول جانے والی عمر کے بچوں کی بيس فيصد تعداد نے اسکول کے احاطے ميں قدم تک نہيں رکھا ہے۔ اس معاملے کو پيچيدہ بنانے والا ايک اور مسئلہ يہ ہے کہ سکارمانگاس ميں يہ پناہ گزين اب بھی اسی کشمکش ميں جی رہے ہيں کہ انہيں يورپی يونين کے کسی اور ملک منتقل کيا جائے گا يا پھر يونان ميں ہی سياسی پناہ دی جائے گی۔

Russland Syrische Flüchtlinge in der Schule in Nogins
تصویر: DW/Y. Wyschnewezkaya

دريں اثناء بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ کی بندش اور کئی ممالک کی جانب سے سرحدی پابنديوں کے نفاذ کے سبب پچاس ہزار مہاجرين يونان ميں ہی پھنس کر رہ گئے ہيں۔ ايتھنز حکام کے ليے اب يہ چيلنج ہے کہ جب تک ان کے بارے ميں کوئی حتمی فيصلہ نہيں ہو پاتا، ان ميں شامل بچوں کو تعليم کی سہولت فراہم کی جائے۔

’مہاجرين کو مدد نہيں زندگی کی تلاش ہے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید