1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ برائے 2009

انعام حسن / مقبول ملک3 جون 2009

ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے آج بدھ کے روز اس سال کے لئے اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ کوعالمی کرپشن بیرومیٹر برائے 2009 کا نام دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/I2sI
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا لوگو

دنیا بھر میں بدعنوانی کے رجحان پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اقتصادی بحران کے نتیجے میں، عالمی سطح پر کاروباری اور پیداواری اداروں کے بارے میں عام شہریوں میں پائی جانے والی بد اعتمادی میں، گذشتہ برسوں کی نسبت سال رواں کے دوران واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس رپورٹ پہلے ٹرانسپیرنسی نے 69 ممالک میں تقریبا 73 ہزار افراد سے بدعنوانی سے متعلق ان کے مشاہدات اور ذاتی تجربات پر مبنی ایک سروے کیا۔

مختلف براعظموں میں رہنے والے ان ہزاروں انسانوں میں سے تقریبا 53 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ کاروباری معاملات میں نجی شعبے کی کمپنیوں کو بدعنوان سمجھتے ہیں۔ یہ سروے جن ملکوں اور خطوں میں کیا گیا ان میں ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ اور لکسمبرگ سمیت دنیا کے کئی بڑے بڑے اقتصادی مراکز شامل ہیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کے مطابق تقریبا 50 فیصد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ نجی کمپنیاں عوامی یا پبلک پالیسیوں کی اپنے نفع نقصان کے امکانات کے مطابق تشکیل کے لئے پالیسی ساز اداروں کو رشوت دینے پر انحصار کرتی ہیں۔

Symbolbild Korruption Euro Scheine und Hände
عالمی مالیاتی بحران کے باعث بھی بدعنوانی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ آرمینیا اور جارجیا دو ایسے ممالک ہیں جہاں پالیسی ساز اداروں اور نجی شعبے کے مابین ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے لئے کرپشن میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ٹرانسپیرنسی کے امسالہ کرپشن بیرومیٹر کے مطابق 10 فیصد افراد نے یہ تسلیم کیا کہ گذشتہ برس خود انہوں نے بھی ذاتی طور پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مختلف اداروں کے اہلکاروں کو رشوت دی تھی۔

ان اداروں میں چند حکومتی محکمے بھی شامل ہیں، جن میں سر فہرست پولیس کا محکمہ ہے۔ کیمرون، لائبیریا، اور یوگنڈا ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا رجحان سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کم آمدنی والے افراد کو رشوت دینے کے لئے زیادہ سماجی دباؤ کا سامنا رہتا ہے، کیونکہ عالمی اقتصادی بحران کے نتیجے میں ان کی نوکریاں خطرے میں ہیں اور انہیں مستقبل کے حوالے سے اپنی جائز آمدنی کے بارے میں بھی مسلسل بے یقینی کا سامنا رہتا ہے۔

برلن میں قائم اس بین الاقوامی ادارے کی سربراہ ڈاکٹر ایوگیٹ لابیل نے کہا کہ اس سروے کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کے دوران عام افراد کی زندگیاں اور کاروبار، کمزور تجارتی قوانین اور کمپنیوں کے لئے باقاعدہ احتسابی عمل کی عدم موجودگی کے باعث، شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود مختلف ملکوں کے عام شہری صاف اور شفاف قوانین کے تحت کاروباری عمل اور منصفانہ لین دین پر مبنی تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حامی ہیں۔ تاہم ان افراد کے اعتماد کی بحالی کے لئے پرائیوٹ کمپنیوں کو بھی اپنے ملازمین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور کاروباری معاملات کو شفاف بنانے کے لئے نئے لیکن موثر احتسابی طریقہ کار وضع کرنے چاہیئں۔