1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ٹرمپ کے مشیر خاص کی سبکدوشی امریکی حلیفوں کے لیے اچھی خبر‘

علی کیفی miodrag Soric
6 اپریل 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پرست مشیر خاص اسٹیو بینن کا ستارہ گردش میں ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار میودراک زورچ کے مطابق بینن کی سبکدوشی امریکی حلیفوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔

https://p.dw.com/p/2ao66
USA | Stephen Bannon aus Nationalem Sicherheitsrat verbannt
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مُشیرِ خاص اسٹیو بینن، جنہیں امریکا کی قومی سلامتی کونسل سے نکال دیا گیا ہےتصویر: REUTERS/J. Bourg

وائٹ ہاؤس میں دوستیوں کے لیے کبھی کوئی جگہ نہیں رہی۔ وہاں مُشیر اور وُزراء صدر کے قریب ہونے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے سخت حربے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ٹرمپ کے مرکزی پالیسی ساز سیاستدان اسٹیو بینن کو قومی سلامتی کونسل یعنی اُس مرکزی کونسل سے نکال دیا گیا ہے، جو امریکا کی خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں کو چلاتی ہے۔ صدر کے مختلف ترجمان طرح طرح کے بیانات کی مدد سے اس سبکدوشی کی کوئی بہتر وضاحتیں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن دراصل یہ سبکدوشی دائیں بازو کے ایک ایسے نظریہ ساز کے بتدریج زوال کا نقطہٴ آغاز ہے، جس نے ٹرمپ کی انتخابی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

امریکا اور اُس کے حلیفوں کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے۔

بینن نے کسی وقت یہ کہا تھا کہ وہ ایک ’لیننسٹ‘ ہے: مطلب یہ کہ وہ بھی لینن کی طرح ریاست کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ بینن کے اِس طرح کے بیانات اور اُن کے دائیں بازو کے اُن قوم پرستانہ نظریات کی وجہ سے، جنہیں وہ چھپانے کی بھی کوشش نہیں کرتے تھے، ری پبلکن پارٹی کے ارکان مہینوں پہلے ہی سے تشویش میں مبتلا تھے: وہ یہ سوال کرنے لگے تھے کہ ٹرمپ آخر کیوں ایک غیر ذمہ دار قسم کے شخص سے مشورے لے رہے ہیں؟ اس بات کو واضح انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ لینن اپنے نظریے پر سختی سے کاربند مجرمانہ ذہن کا حامل ایک ایسا شخص تھا، جو کئی ملین انسانوں کی موت کے لیے قصور وار تھا۔ کوئی بھی سنجیدہ شخص اُس کی طرح کا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

Soric Miodrag Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو (ڈوئچے ویلے) کے واشنگٹن متعینہ نمائندے میودراک زورِچ

ٹرمپ کے لیے عملی قدم اٹھانا ضروری ہو گیا تھا

ٹرمپ کافی عرصے تک تمام خدشات کو بے بنیاد قرار دے کر نظر انداز کرتے رہے۔ دریں اثناء وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ صدر کو اپنا عہدہ سنبھالے مشکل سے دو مہینے ہوئے ہیں اور اُن کی ساری پالیسیاں اُن کے دیکھتے دیکھتے کھنڈر بن چکی ہیں: شام میں ایک بار پھر کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں، شمالی کوریا نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ کیا ہے، میکسیکو واشنگٹن کے ساتھ تعاون سے انکار کر رہا ہے اور امریکا کے بہت سے حلیف بے یقینی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اپنے تمام تر اعلانات کے باوجود ٹرمپ ایک بھی قانون کو کانگریس سے منظور نہیں کروا پائے۔ اُن کے سرکردہ پالیسی ساز بینن کی حکمتِ عملی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ صرف ہر تیسرا امریکی ہی اپنے صدر کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔

اگر ٹرمپ ابھی بھی حالات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُنہیں لازمی طور پر عملی قدم اٹھانا ہو گا۔ ابھی وہ بینن کو انتظامیہ سے مکمل طور پر اُٹھا کر باہرنہیں پھینک سکتے کیونکہ بینن ایسی بہت سی باتوں کا علم رکھتے ہیں، جو اقتدار کے ایوانوں میں بند دروازوں کے پیچھے ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ہاں، ٹرمپ بینن سے ایک ایک کر کے اختیارات ضرور واپس لے سکتے ہیں۔

USA Generalleutnant H. R. McMaster und Dnald Trump in Palm Beach
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نئے مُشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر کے ساتھتصویر: Reuters/K. Lamarque

معاملہ روس کا بھی ہے

اب واشنگٹن میں یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ بینن کو ہٹانے میں کلیدی کردار کِس شخص نے ادا کیا ہے: نئے مُشیر برائے قومی سلامتی میک ماسٹر نے؟ نائب صدر پینس نے؟ سینیٹرز نے یا ٹرمپ کے داماد کُشنر نے؟ ہو سکتا ہے کہ یہ کام اِن سب نے مل کر کیا ہو۔ اب لیکن یہ بات ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔

فیصلہ کن بات یہ ہے کہ بینن کا  اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے جبکہ سیکرٹ سروس کے ڈائریکٹر ڈَین کوٹس یا چیف آف جنرل سٹاف ڈَنفورٹ جیسے ماہر سیاستدانوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ ٹرمپ نے اِن دونوں کو قومی سلامتی کونسل میں شامل کر لیا ہے۔ امکان ہے کہ اس سے اُن کی خارجہ اور سلامتی کے امور کی پالیسیاں کہیں زیادہ متوازن شکل اختیار کر جائیں گی۔ امریکا کے حلیفوں کے لیے یہ بات خوش آئند ہو گی۔ ماسکو میں بیٹھے خارجہ اور سلامتی کے روسی سیاستدان اتنے ہی زیادہ ناخوش ہوں گے۔

بینن مستقل طور پر روس کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہے۔ امکان ہے کہ اب اس طرح کے پروگرام سرد خانے میں ڈال دیے جائیں گے۔ یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جب تک پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹیاں ٹرمپ کی انتخابی ٹیم اور ماسکو کے درمیان ممکنہ روابط کی تحقیقات میں مصروف رہیں گی، تب تک واشنگٹن حکومت امریکی روسی تعلقات میں کسی نئے موڑ کے لیے کوشش نہیں کرے گی۔

قومی سلامتی کونسل سے بینن کا نکالا جانا کئی طرح کے اثرات مرتب کرے گا۔