1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاناما کیس کا فیصلہ جمعے کے روز، سکیورٹی ہائی الرٹ

بینش جاوید
27 جولائی 2017

پاکستانی میڈیا کے مطابق ملکی سپریم کورٹ کل جمعہ 28 جولائی کو دن ساڑھے گیارہ بجے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے گی۔ اس تناظر میں اسلام آباد کے ریڈ زون میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2hGlM
Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
تصویر: Reuters/C. Firouz

واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس دس جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی تھی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ کے بینچ نے اس مقدمے کی پانچ سماعتیں کیں، جن میں تمام فریقین نے اپنے دلائل دیے۔ پاناما کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ اب سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بنچ کل ساڑھے گیارہ بجے فیصلہ سنائے گا۔

اسلام آباد کی صحافی صبا بجیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں کل دن ساڑھے گیارہ بجے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے گا۔‘‘ پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے صحافی اعزاز سید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اسلام آباد میں سکیورٹی کی غیر معمولی صورتحال ہے۔ اگر مسلم لیگ نون کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اس سیاسی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے احتجاج بھی متوقع ہے۔‘‘

اعزاز نے کہا، ’’حکومتی حلقوں میں بھی کافی پریشانی ہے اور آج پاکستان کے وزیر داخلہ نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں۔‘‘

Bosnien-Herzegowina Pakistans Premierminister Nawaz Sharif
پاناما کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کر لیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Emric

اعزاز سید کہتے ہیں کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا ہے اور اگر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ ملکی کابینہ ٹوٹ جائے گی لیکن چونکہ پارلیمنٹ میں اکثریت مسلم لیگ نون کی ہے اس لیے حکومت مسلم لیگ نون کی رہے گی اور ممکنہ طور پر ایک نیا وزیر اعظم نامزد کرے گی جسے پارلیمنٹ کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنا پڑے گا اور نئی کابینہ بنے گی۔ اعزاز کی رائے میں ایسا بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ نون نئے انتخابات کا اعلان کرے لیکن اس کا امکان کم ہے اور یوں لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی نا اہلی کی صورت میں بھی حکومت پانچ سال کی مدت پوری کرے گی۔

دوسری جانب چند تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں وزیر اعظم کو نا اہل نہ قرار دیا جائے۔

اسلام آباد میں ڈی ڈبلیو کے نمائندہ عبدالستار کا کہنا ہے، ’’اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے لیکن فیصلے کے حوالے سے پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنایا جاتا ہے تومستقبل قریب میں عمران خان اور جہانگیر ترین جن کے کیسز بھی عدالت میں چل رہے ہیں ان کے خلاف بھی ایسے فیصلے سنائے جاسکتے ہیں اور ایسا ہونے کی صورت میں ملک میں سیاسی خلاء پیدا ہو سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں