1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

پاناما کیس کی سماعت ، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

بینش جاوید
23 فروری 2017

جمعرات کے روز پاکستان کی سپریم کورٹ میں وکلاء دفاع اور استغاثہ کے دلائل کے اختتام کے بعد سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس کے فیصلے کو محفوظ کر رہے ہیں اور تفصیلی فیصلے کو بعد میں سنایا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2Y8X9
Muhammad Nawaz Sharif speaks at summit meeting for refugee crisis at the UN
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Graff

سپریم کورٹ کے جج  جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آج  اس کیس کی سماعت کا اختتام کرتے ہوئے کہا، ’’ اگر فیصلہ کسی ایک پارٹی کے مفاد میں نہیں ہو گا تو کہا جائے گا کہ عدلیہ کرپٹ ہے یا یہ کہ ججز اس قابل نہیں ہیں کہ اس کیس کو ہینڈل کر سکیں۔ اور اگر فیصلہ اس پارٹی کے حق میں آئے گا تو کہا جائے گا کہ ان سے بہتر تو کوئی جج ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ وہ قانون کے مطابق اس کیس کا ایسا فیصلہ کریں گے کہ بیس برس بعد بھی لوگ کہیں گے کہ اس کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا گیا تھا۔

پاناما کیس کا آغاز پاناما لیکس منظر عام آنے کے بعد ہوا تھا۔ پاناما پیپرز ، جو کے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹو جرنلسٹس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں،  نے یہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹی مریم اور بیٹا حسن اور حسین آف شور کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ اس کیس کی تفصیلات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پروگرام ’شاہرہ دستور سے اے کیو ایس‘ کے کے اینکر عبدالقیوم صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ پاناما لیکس میں یہ بات سامنے آئی کے لندن میں مے فئیر فلیٹس آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور یہ آف شور کمپنیاں شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔‘‘ اس کے بعد پاکستان میں بھی نواز شریف پر دباؤ بڑھ گیا۔ جس کے بعد وزیر اعظم نے ایک تقریر کی اور پھر پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔ 

اس معاملے پر اس وقت اپوزیشن پارٹی  پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے۔  وزیر اعظم نے عمران خان کی درخواست پر  ریٹائرڈ ججز کی سربراہی میں کمیشن بنانے کی تجویز دی تھی، جسے  عمران خان نے قبول نہیں کیا تھا۔ وزیر اعظم نے پھر چیف جسٹس آف پاکستان کو کمیشن بنانے کے لیے خط لکھ دیا تھا۔ وزیر اعظم کے خط کے جواب میں اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا تھا کہ 1956 کمیشن آف انکوئری ایکٹ کے تحت کمیشن بیکار ہو گا اور اس حوالے سے  قانون بنایا جائے اور بتایا جائے کہ کن افراد کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے۔

اسی دوران پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کر دی تھی کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں مے فئیر فلیٹس خریدنے کے لیے استعمال کی گئی رقم کے حوالے سے پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی ہے اور اب وہ صادق اور امین نہیں رہے لہذا سپریم کورٹ وزیر اعظم کو نااہل قرار دے ۔

عبدالقیوم صدیقی کہتے ہیں کہ  اس کیس کی قانونی کارروائی کے پہلے حصے کی  آخری سماعت 9 دسمبر کو ہوئی۔ یہ مقدمہ جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دیا گیا اور کیوں کہ چیف جسٹس ریٹائر ہو رہے تھے تو انہوں نے اس کیس کی از سر نو سماعت کرنے کا کہا ۔ جنوری میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی۔ اس کیس میں  بینچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے تھے اور اس بینچ نے دونوں فریقین کو ثبوت جمع کرانے کا کہا۔

عبدالقیوم صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے اب عدالت نے اس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ عدالت ایک تفصیلی فیصلہ سنائے گی۔ عبدالقیوم صدیقی نے کہا، ’’ اب عدالت نے یہ فیصلہ دینا ہے کہ آیا پاکستان کے وزیر اعظم صادق اور امین  ہونےکے معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں ؟  فیصلہ محفوظ کرنا اور یہ کہنا کہ تفصیلی فیصلہ آئے گا، اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ بینچ میں اختلاف رائے ہے۔ خصوصی طور پر کیا موجودہ مواد کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اس پوائنٹ پر ججبوں میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ فیصلہ کسی کے بھی حق میں آسکتا ہے۔‘‘    

         

سماعت کے اختتام پر  عمران خان نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ انہوں نے ’آخری گیند‘ تک ملک میں انصاف کے لیے اور کرپشن کے خلاف کوشش کی ہے اور اب کامیابی کے لیے خدا سے دعاگو ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کے چند رہنماؤں نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت میں کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے مصدقہ ثبوت عدالت میں پیش کیے ہیں اور وہ  یقین رکھتے ہیں کہ عدالت  انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرے گی۔