1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانی، بجلی اور خوراک کی فراہمی معطل، مہاجرین پریشان

عاطف بلوچ، روئٹرز
1 نومبر 2017

پاپوا نیو گنی میں موجود مہاجرین نے مانوس کے حراستی کیمپ کو خیر باد کہنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکام نے اس کیمپ میں پانی، بجلی اور کھانے کی سپلائی بند کر دی ہے تاہم مہاجرین بضد ہیں کہ وہ اس کیمپ کو خالی نہیں کریں گے۔

https://p.dw.com/p/2mq2X
Manus Island Migration Aufnahmelager
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Blackwell

خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاپوا نیو گنی سے بدھ کے دن ملنے والی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس جزیرے پر قائم مہاجرین کے حراستی مرکز میں موجود افراد بضد ہیں کہ وہ اس حراستی مرکز کو خیر باد نہیں کہیں گے۔ پاپوا نیو گنی کے مانوس جزیرے پر قائم اس حراستی مرکز کا انتظام آسٹریلوی حکومت کے پاس ہے۔

پاپوآ نیوگنی میں مہاجر بستی کی بندش، شدید کشیدگی

مہاجرین کے معاہدے پر اقوام متحدہ کا الزام غلط ہے، آسٹریلیا

ناؤرو کے مہاجرین کی امیدیں پھر ڈوب گئیں

مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟

کينبرا حکومت ماضی میں ایسے افراد کو اس کیمپ یا ناورو میں واقع ایک اور کیمپ میں منتقل کرتی رہی ہے، جو سمندری راستے سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش میں ہوتے تھے۔ تاہم انسانی حقوق کے اداروں کی طرف ان کیمپوں کی ابتر صورتحال پر شدید تنقید کے بعد اب آسٹریلوی حکومت انہيں بند کرنا چاہتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق مانوس کے مہاجر کیمپ میں کم ازکم چھ سو مہاجرین قید ہیں، جن کی کوشش ہے کہ اس کیمپ کو بند کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے۔ انہیں خوف ہے کہ اگر یہ کیمپ بند ہو گیا تو انہیں اس جزیرے کے مقامی لوگوں سے پرتشدد سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یکم نومبر بروز بدھ اس کیمپ کے کچھ مردوں نے اُس بس پر سوار ہونے سے انکار کر دیا، جس نے انہیں ایک عارضی سینٹر لے جانا تھا۔

اس کیمپ کے تین مہاجرین نے روئٹرز کو بتایا کہ کیمپ کو خالی نہ کرنے پر حکام نے بجلی کی سپلائی منقطع کر دی ہے جبکہ پانی کے کنکیشن بھی کاٹ دیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کھانے کو بھی کچھ نہیں مل رہا اور اس صورتحال میں اس کیمپ کے رہائشی بہت زیادہ پریشان ہیں۔

اس صورتحال میں پاپوا نیو گنی کے وکلاء کی ایک ٹیم نے فوری طور پر ملکی سپریم کورٹ میں ان مہاجرین کی ایماء پر ایک درخواست دائر کر دی ہے۔ ان وکلاء کا اصرار ہے کہ اس کیمپ کو بند نہیں ہونا چاہیے اور بنیادی سہولیات کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ مقامی ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ بدھ کے دن ہی اس بارے میں اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔

دوسری طرف نگران آسٹریلوی وزیر اعظم جولی بشپ نے اس کیمپ کے باسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ نئے بنائے گئے عارضی کیمپوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ وہ فوری طور پر بنیادی اشیائے ضرورت حاصل کر سکیں۔ آسٹریلوی حکومت کے مطابق ان مہاجرین کو نئے شیلٹر سینٹرز میں تمام تر سہولیات میسر ہوں گی اور انہیں بارہ ماہ کی سکیورٹی بھی دی جائے گی کہ انہیں یہاں سے نہیں نکالا جائے گا۔

اس دوران آسٹریلوی حکومت امریکا کے ساتھ مل کر مہاجرین کی درخواستوں پر کارروائی کرے گی تاکہ ان مہاجرین کو امریکا منتقل کرنے کے حوالے سے ضروری قانونی تقاضے پورے ہو سکیں۔ اگر یوں ہوتا ہے تو کينبرا حکومت مانوس اور ناورو کے جزائر پر موجود چودہ سو مہاجرین کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گی۔ ایسے مہاجرین جن کو امریکا بھی مسترد کر دے گا، ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پاپوا نیو گنی میں ہی زندگی گزاریں گے اور انہیں آسٹریلیا جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔