1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاپائے روم آئندہ ہفتے ليسبوس کا دورہ کريں گے

عاصم سليم6 اپریل 2016

ايتھنز حکومت نے اعلان کيا ہے کہ مسيحيوں کے روحانی پيشوا پاپائے روم آئندہ ہفتے يونانی جزيرے ليسبوس کا دورہ کريں گے، جو مہاجرين کے بحران ميں کليدی اہميت کا حامل ہے۔

https://p.dw.com/p/1IQIP
تصویر: Reuters/Osservatore Romano

يونانی حکومت کے ايک ذرائع کے مطابق پاپائے روم کا يہ دورہ چودہ يا پندرہ اپريل کے روز ممکن ہے۔ دورے پر مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ بھی پوپ کے ساتھ ہوں گے۔ پاپائے روم کا يہ مختصر دورہ يورپی سربراہان پر دباؤ ميں اضافے کا سبب بنے گا، جو مہاجرين کی يورپ آمد روکنے کے ليے گزشتہ ماہ ترکی کے ساتھ ايک متنازعہ معاہدہ کر چکے ہيں۔ ايتھنز حکومت کے اعلان کے مطابق وزير اعظم اليکسس سپراس پوپ کے ہمراہ ليسبوس کے دورے پر جائيں گے۔

پچھلے قريب ايک سال کے دوران دنيا کے کئی شورش زدہ ملکوں سے سياسی پناہ کے ليے لاکھوں تارکين وطن ليسبوس پر پہنچ چکے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ يورپی براعظم کو درپيش مہاجرين کے بحران ميں ليسبوس ايک علامت کی حيثيت رکھتا ہے۔ بحران کے حل کے ليے گزشتہ ماہ ہی برسلز اور انقرہ کے مابين ايک متنازعہ معاہدہ طے پايا، جس کے تحت سياسی پناہ کے ناکام درخواست دہندگان سميت اندراج نہ کرانے والے سينکڑوں مہاجرين کو ان دنوں يونان سے واپس ترکی بھيجا جا رہا ہے۔ ڈيل سے گرچہ مہاجرين کی يورپ آمد ميں کمی رونما ہوئی ہے تاہم انسانی حقوق کے ليے سرگرم ادارے، اقوام متحدہ اور پاپائے روم خود بھی اسے تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔

يونانی جزيرہ ساموس ترکی سے صرف ايک ميل کی دوری پر واقع ہے
يونانی جزيرہ ساموس ترکی سے صرف ايک ميل کی دوری پر واقع ہے

پاپائے روم کے يونان کے دورے کے بارے ميں تصديق کرتے ہوئے يونانی آرتھوڈوکس گرجا گھر کی جانب سے بتايا گيا ہے کہ دورے کی منظوری پہلے ہی دی جا چکی ہے۔ چرچ کے مطابق پوپ فرانسس نے اس بڑے انسانی الميے پر روشنی ڈالنے کے مقصد سے ليسبوس جانے کی خواہش کا اظہار کيا۔

اس ہفتے کے آغاز پر دو سو کے قريب مہاجرين کے پہلے گروپ کو یونان بدر کيے جانے کے بعد سے يونانی جزائر پر ماحول کشيدہ ہے۔ ايک ترک اہلکار نے بتايا کہ اسی سبب يونان کی درخواست پر اگلے گروپ کی ملک بدری کو جمعے تک کے ليے ملتوی کر ديا گيا ہے۔

پاکستانی پناہ گزين بھوک ہڑتال پر

دريں اثناء ساموس نامی يونانی جزيرے پر ايک پاکستانی تارک وطن نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا ہے کہ تقريباً ايک سو پاکستانی پناہ گزينوں نے احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال جاری رکھی ہوئی ہے۔ علی نامی اس تارک وطن نے کہا، ’’ہم اپنی جان کو خطرے ميں ڈال کر يہاں تک پہنچتے ہيں اور ہم ترکی واپس نہيں جانا چاہتے کيوں کہ وہاں سے ہميں واپس پاکستان بھيج ديا جائے گا۔‘‘ علی کے بقول وہ اور ديگر پاکستانی پناہ گزين ايتھنز ميں سياسی پناہ کے ليے درخواست نہيں دينا چاہتے بلکہ وہ جرمنی جانا چاہتے ہيں۔