1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی اشرافیہ کیوں دست شناسوں کی دست نگر؟

عدنان اسحاق21 اکتوبر 2015

مذہبی ممانعت کے باوجود پاکستانی اشرافیہ میں ہاتھوں کی لکیروں اور ستارہ شناسی کے ذریعے اپنی قسمت کا حال جاننے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ تاہم ملکی حالات کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اس طرح کی سرگرمیاں مزید فروغ پا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GrMG
تصویر: imago/ZUMA Press

یہ بات 1998ء کی ہے، جب پاکستان میں ایک عجیب افرا تفری کا سا سماں تھا۔ بھارت جوہری تجریے کر چکا تھا اور پاکستان کو لازمی طور پر جواب دینا تھا۔ اس صورت حال میں سائنسدان جوہری تجربے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے جبکہ سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھے تھے کہ تجربے کے بعد مغرب کی ممکنہ پابندیوں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا۔ اس بےچینی کی صورتحال میں پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹرعبد القدیر خان کچھ ایسی سرگرمیوں میں مصروف تھے، جن کا تعلق سائنس و تحقیق کے شعبے سے نہیں ہے۔ وہ اپنے دست شناس یعنی پامسٹ سے یہ جاننے کی کوشوں میں تھے کہ جوہری دھماکے کے بعد انہیں کتنی شہرت ملے گی۔ یہ بات انہوں نے فون پر خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتائی۔ ’’مجھے یہ اچھا لگتا ہے لیکن میں صرف مخصوص مواقع پر دست شناس سے رابطہ کرتا ہوں۔ مجھے کبھی بھی اس کا جنون نہیں تھا۔‘‘

اسلام آباد میں آئی ایچ ملک ایک نامی گرامی پامسٹ ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برسوں سے قسمت کا حال بتا رہے ہیں۔ وہ سابق پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور شوکت عزیز کے ہاتھ دیکھ چکے ہیں جبکہ مختلف ججز، فوجی جرنیلوں، سفارت کاروں، صنعت کاروں اور بڑے بڑے سرکاری افسران بھی ان سے اپنے مستقبل کا حال جانتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ سب لوگ اپنی زندگی میں بہت آگے جانا چاہتے تھے‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستانی اشرافیہ کے زیادہ تر لوگ یہی خواہش رکھتے ہیں جبکہ پڑھے لکھے اور پر عزم نوجوان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ آئی ایچ ملک کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

Pakistan Handlesen auf der Straße
تصویر: Imago/Pak/IMAGES/Ilyas Dean

اسلام آباد کی ایک ماہر نفسیات صادیہ خان کہتی ہیں’’جو لوگ قسمت حال بتانے والوں کے پاس جاتے ہیں یا تو وہ بہت پرعزم ہوتے ہیں یا پھر وہ امکانات کے حوالے سے خوفزدہ‘‘۔ لاہور کے معروف دست شناس اے ایس چوہدری کے بقول ’’ ایک عرصے سے اشرافیہ میرے پاس ازدواجی مسائل، سیاسی کامیابی اور بیرون ملک مواقع کے بارے میں جاننے کے لیے آ رہے ہیں‘‘۔ اے ایس چوہدری ’ ماموں‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اٹھائیس سالہ تاجر عمران رانا گزشتہ دو برسوں سے اے ایس چوہدری کے پاس آ رہے ہیں۔ ’’میرے احباب مجھے صبرکی تلقین کرتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہوں‘‘۔ پامسٹ چوہدری عمران رانا کو ہر مرتبہ کہتے ہیں ’’ اپنی کوشش جاری رکھو، ستارے ایک نہ ایک دن ضرور تمہارا ساتھ دیں گے‘‘۔