1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی خواتین: عظمت اور مصائب کے درمیان

علی کیفی Kishwar Mustafa
20 اپریل 2017

پاکستان کے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ وہاں کئی خواتین مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں لیکن وہاں کی اکثر خواتین کے مصائب بھی بے پناہ ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے شعبہٴ اردو کی سربراہ کشور مصطفیٰ کا تحریر کردہ ایک تجزیہ۔

https://p.dw.com/p/2bb44
Bildergalerie Das andere Pakistan
تصویر: Shamil Shams

صنفی عدم مساوات کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری ہونے والی تازہ ترین ’گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ‘ میں 144 ممالک میں پاکستان کا نمبر 143 ہے۔ پاکستان اس فہرست میں اپنے ہمسایہ  ملکوں بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی کہیں کم درجے پر ہے۔ اس فہرست میں آخری پوزیشن پر یمن ہے۔

پاکستانی معاشرے میں سماجی ترقی کے اعتبار سے حیران کن تضادات نظر آتے ہیں۔ شہری علاقوں میں لوگوں کو تعلیم اور صحت سے لے کر کئی دیگر شعبوں میں بھی کافی زیادہ سہولتیں اور مواقع حاصل ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں یہ سہولتیں کافی کم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ قبائلی علاقے ابھی تک گویا قرونِ وُسطیٰ کے دور ہی سے باہر نہیں نکلے۔

اس وسیع تر تقسیم پر مردانہ شاونیت اور ایسے طے شُدہ سماجی کرداروں کی چھاپ ہے، جس میں خواتین کی اپنی انفرادی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ اُنہیں ماؤں، بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں ہی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ مردوں کے غلبے والے معاشرے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی سے وابستہ سماجی امور کی خاتون ماہر نائمہ سعید کے خیال میں خواتین کو ملازمتوں اور کیریئر کے حوالے سے بہت کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں:’’اُن کی زندگیوں کا فیصلہ اُن کے اہل خانہ کرتے ہیں، اُن کے لیے اقتصادی طور پر آزادانہ کیریئر چُننے کے بہت کم مواقع ہوتے ہیں، اُن کے اقتصادی حقوق کا فیصلہ اُن کے گھر کے مرد ارکان کرتے ہیں۔‘‘

’پاکستانی خواتین کو کس کس طرح کے خوف‘

اقتصادی سرگرمیوں پر فیوڈل سوچ کا کنٹرول

گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی خواتین فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں۔ اُنہیں اُن کھیتوں پر کام کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا، جو اُن کے اپنے خاندان کی ملکیت ہوتے ہیں۔ کھیت کسی اور کے ہوں تو بھی اُنہیں ملنے والا معاوضہ یا تو خاندان کی کُل کمائی کا حصہ بن جاتا ہے یا پھر سیدھا گھر کے مرد ارکان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

پاکستان کے کچھ دیہی اور قبائلی علاقوں میں خواتین کی حیثیت ایسے غلاموں کی سی ہے، جنہیں صرف کھانے اور پہننے کو ہی دینا پڑتا ہے۔ شہری علاقوں میں ملازمت پیشہ خواتین کو کئی ایک  مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں جنسی طور پر پریشان کیے جانے سے لے کر تنخواہوں میں امتیازی سلوک اور استحصال تک شامل ہوتے ہیں۔

Malala Yousafza Nobelpreisträgerin in Kenia
ملالہ یوسف زئی نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلائی، طالبان کی نفرت کا نشانہ بنیں اور اپنی کوششوں کے بدلے میں نوبل انعام حاصل کیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Senosi

ریحانہ ہاشمی لاہور میں پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی امور کی ایک ماہر ہیں۔ اُن کے خیال میں جن شہری خواتین کو ملازمت کی اجازت مل بھی جاتی ہے اور وہ پُرکشش تنخواہیں بھی گھر لاتی ہیں تب بھی  اُنہیں گھر کے فیصلوں میں شرکت کا حق نہیں دیا جاتا۔

امریکا میں قائم اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن سے وابستہ سماجی کارکن فوزیہ نقوی پاکستان میں ترقی اور اقتصادی متبادلات کا انسٹیٹیوٹ چلاتی ہیں۔ اُن کے خیال میں بھی پاکستانی خواتین کے کام کی زیادہ قدر نہیں کی جاتی:’’کروڑوں خواتین گھر چلاتی ہیں لیکن اُن کے اس کام کو کام ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ خواتین تین روز کے لیے بھی کام چھوڑ دیں تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے۔ تب انہیں خواتین کی اقتصادی اہمیت کا پتہ چلے گا۔‘‘

عالمی سطح کی رہنما خواتین

پاکستان کی تاریخ میں ملک کے بانی محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کی طرح کی ممتاز خواتین کا نام بھی آتا ہے، جنہیں ایک ایسے اپوزیشن اتحاد نے اپنی سربراہ منتخب کیا تھا، جس میں انتہائی قدامت پسند مذہبی رہنما بھی شامل تھے۔ فاطمہ جناح نے فوجی آمر ایوب خان کے مقابلے پر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور اگر دھاندلی نہ ہوتی تو وہ ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہو سکتی تھیں۔ پھر بے نظیر بھٹو کسی مسلمان ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔

Pakistan Benazir Bhutto
سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کسی مسلمان ملک میں اس عہدے تک پہنچنے والی پہلی خاتون تھیںتصویر: dapd

حال ہی میں دیکھنے میں آیا کہ ملالہ یوسف زئی نے کیسے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلائی، کیسے وہ طالبان کی نفرت کا نشانہ بنیں اور کیسے اُنہوں نے اپنی کوششوں کے بدلے میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شرمین عبید چنائے ایسی فلموں کی پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بنیں، جنہوں نے آسکر ایوارڈ حاصل کیے۔ نگہت داد کو سائبر سکیورٹی کے شعبے میں اپنی سرگرمیوں کی  بدولت ہالینڈ کی حکومت کے حقوقِ انسانی ٹیولپ ایوارڈ جیسے بین الاقوامی اعزازات سے نوارا گیا۔ پاکستان میں اور بھی بہت سی خواتین پولیس اور فوج کے ساتھ ساتھ  سرکاری شعبوں میں بھی سرگرم عمل ہیں۔

دوسری جانب یہ تمام تر کامیابیاں بھی ملک کی خواتین کی اکثریت کی حالت بدلنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہیں۔ ریحانہ ہاشمی کے خیال میں یہ خواتین اس لیے کچھ نہیں کر پاتیں کیونکہ اُنہیں مغرب زدہ اور اسلامی تعلیمات کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ اُن کے اور خواتین کے امور کی ماہر دیگر خواتین کے خیال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مردوں کو خواتین کی قدر اور اُن کا احترام کرنا سکھایا جائے جبکہ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی صنفی عدم مساوات کو ختم کیا جائے۔