1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی، اعلیٰ امریکی جنرل

عاطف بلوچ، روئٹرز
29 نومبر 2017

افغانستان متعین امریکی جنرل نے کہا ہے کہ امریکی صدر کی اسلام آباد کے خلاف سخت پالیسی کے باوجود پاکستان نے جنگجوؤں کی مدد کرنا ختم نہیں کی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان جنگجوؤں کو ٹھکانے فراہم کیے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/2oRM6
Afghanistan - US Soldaten am Ort eines Selbstmordanschlags der Taliban
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/S. Seiam

خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی جنرل جان نکلسن کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان ایسے جنگجوؤں کو بدستور مدد فراہم کر رہا ہے، جو افغانستان میں امریکی اور کابل حکومت کے مفادات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان ’افراتفری پھیلانے والے عناصر‘ کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ اس اعلیٰ امریکی جنرل نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں سخت پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے جنگجوؤں کے خلاف پاکستانی موقف میں کوئی تبدیلی نوٹ نہیں کی ہے۔

امریکا کو مشترکہ آپریشن کی دعوت، متعدد سیاسی جماعتیں چراغ پا

پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی کے مصنف حسین حقانی ؟

کيا پاکستان کے حوالے سے امريکی پاليسی تبديل ہونے والی ہے؟

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی

امریکی حکام افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستانی کردار کو اہم قرار دیتے ہیں لیکن بارہا زور دینے کے باوجود وہ اسلام آباد حکومت سے اپنے ایسے مطالبات نہیں منوا سکے ہیں کہ وہ افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں پر قائم انتہا پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو غیر فعال بنا دے۔ ان میں حقانی نیٹ ورک بھی آتا ہے، جس کے بارے میں کابل اور واشنگٹن حکومتوں کا کہا کہ اس شدت پسند گروہ کے پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ہیں۔

اگست میں ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے اپنی انتظامیہ کی نئی پالیسی وضع کی تھی، جس میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ طالبان جنگجوؤں کو مدد فراہم کرنے کی اپنی حکمت عملی کو ختم کر دے۔ امریکی صدر کی اس سخت پالیسی پر پاکستان میں غم و غصے کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ تب پاکستان کی سول حکومت نے امریکا کو مکمل یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ حقانی سمیت دیگر جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار ہیں۔

جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ وعدوں کے باوجود پاکستان کی طرف سے ان جنگجوؤں کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ وہ تبدیلیاں آئیں گی، جن کا پاکستان نے وعدہ کیا ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کو تیار ہیں، جو سرحد پار کرتے ہیں۔‘‘ جنرل نکلسن نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں ہے جبکہ نچلی سطح کی لیڈر شپ افغانستان میں۔

جنرل نکلسن کے مطابق وہ دیگر اعلیٰ امریکی حکام سے متفق ہیں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ روابط ہیں۔ امریکا نے سن دو ہزار بارہ میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکا کی ہرممکن مدد کی ہے۔

فور اسٹار جنرل نکلسن نے مزید کہا کہ مغربی افغانستان میں فعال طالبان کے ایران سے بھی روابط ہیں۔ افغانستان میں حالیہ عرصے میں طالبان کے حملوں میں اضافے کی وجہ سے امریکا نے اس شورش زدہ ملک میں اضافی تین ہزار فوجی تعینات کیے ہیں۔ جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ ان میں سے ایک ہزار فوجی طالبان کے خلاف لڑائی میں شریک مقامی فوجیوں کو تربیت اور مشاورت کا کام کریں گے۔