1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ضلع چکوال: بیروزگاری کا حل، فوج میں بھرتی

11 جون 2010

پاکستانی ضلع چکوال کے حکام کہ کہنا ہے کہ اس بنجر ڈسٹرکٹ کا کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں پاکستان کی سلامتی کے لئے لڑی جانے والی کسی نہ کسی جنگ میں جاں بحق ہونے والے کسی فوجی کی کی قبر نہ ہو۔

https://p.dw.com/p/NnoM
تلہ گنگ کا استحزار حسین اسی اسپیشل سروسز گروپ کا رکن تھاتصویر: AP

کئی عشروں سے اِس علاقے کے لوگ اپنے بیٹوں کو فوج میں بھیجتے ہیں، جس سے نہ صرف علاقے کے نوجوانوں کو روزگار ملا ہے بلکہ اِس علاقے میں شرحِ خواندگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اِس علاقے میں ہونے والی ان خوشگوار تبدیلیوں کے پیچھے رنج و الم کی کہانیاں بھی پوشیدہ ہیں۔

ایک ایسے موقع پر جب پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے، اس کی صفوں میں کئی نوجوان سپاہی شامل ہو رہے ہیں۔ اِن نوجوان سپاہیوں میں سے زیادہ تر چکوال جیسے علاقوں سے آتے ہیں۔ یہ سپاہی اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے ایک ایسے پیشے کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں ان کی زندگیوں کو خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں۔

Flash-Galerie Pakistan: Soldaten in Lahore, Pakistan
تصویر: AP

دس لاکھ کی آبادی والے چکوال میں اب بھی قریب ہر گھر کا ایک نوجوان پاکستانی فوج میں فرائض انجام دے رہا ہے لیکن اس علاقے میں نوجوانوں کے لئے روزگار کا کوئی دوسرا بڑا ذریعہ موجود بھی نہیں ہے۔ اس علاقے میں کسان گندم، سرسوں کے بیج اور مونگ پھلی کی فصلیں صرف اتنی ہی اگا سکتے ہیں، جو ان کی گذر بسر کے لئے کافی ہو۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق چکوال میں بےروزگاری کی شرح 12 فیصد ہے، جبکہ قومی شرح بے روزگاری 5.2 فیصد بنتی ہے۔ فوج میں بھرتی ہونے والے عام سپاہیوں کو شروع میں آٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، جس میں دوارن ملازمت اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

ضلع چکوال کے انتظامی امور کے سربراہ طارق بخشی کا کہنا ہے کہ علاقے میں صنعتیں لگ سکتی ہیں لیکن اِس ڈسٹرکٹ میں نہ ہی سٹرکوں کا کوئی مناسب نیٹ ورک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خام مال دستیاب ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں نہری نظام بھی قائم نہیں کیا جا سکتا۔"

بخشی کا کہنا ہے کہ چونکہ زیادہ ترافراد اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، اس لئے علاقے کے نوجوانوں کے پاس فوج میں بھرتی ہونے کے علاوہ روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ باقی نہیں رہتا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان آرمی ہر سال سینکڑوں نوجوانوں کو اس علاقے سے بھرتی کرتی ہے، جس کے بعد بےروزگاری کی شرح کم ہوگئی ہے اور شرحِ خواندگی بڑھ کر 72 فیصد ہو چکی ہے۔

پاکستانی فوج کے مطابق طالبان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں اب تک 2273 سپاہی جاں بحق جبکہ 6500 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے ان فوجیوں میں سے ایک سپاہی صفدر حسین بھی تھا۔ اُس کی ماں منور نور کے مطابق صفدرکے والد کا انتقال اس وقت ہوا، جب صفدر صرف ایک سال کا تھا۔ اس کی ماں نے انتہائی سخت حالات میں اس کی پرورش کی اور جب صفدر انیس سال کا ہوا، تو اس نے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کر لی۔

صفدر حسین نے 13 سال تک آرمی میں خدمات انجام دیں اور وہ ہر مہینے پانچ ہزار روپے اپنے گھر بھیجتا تھا، جس سے اس کے گھر والوں کی گذر بسر ہوتی تھی۔ آمدنی کے اس مناسب ذریعے نے اس کے گھر والوں کو غربت کی زندگی سے چھٹکارا دلا دیا تھا۔

شاید ان کی زندگی میں اچھے دن بھی آ جاتے۔ لیکن اس سے قبل کہ آسودہ زندگی ان کے گھر کا راستہ دیکھتی، رنج والم کی طوفانی آندھی منور نور اور ان کے گھر والوں کی تمام خوشیاں غارت کر گئی۔ گزشتہ سال پندرہ اگست کو موت کی بے رحم دیوی نے اس کے بیٹے کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ صفدر حسین پاکستان کی حسین وادی سوات میں اس وقت ہلاک ہوا جب ایک فوجی چیک پوسٹ پر شدت پسندوں کی طرف سے ایک کار بم حملہ کیا گیا۔

Pakistan Armut
چکوال میں بے روزگاری کی شرح 12 فیصد ہےتصویر: AP

اپنے بیٹے کے ماتھے پر شادی کا سہرا سجانے کا خواب دیکھنے والی منور نور نے اس کے جسم کو خون میں لتھڑے ہوئے دیکھا اور پھر سفید کفن میں اپنے لخت جگر کو شہرِ خاموش کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ آج بھی اپنے ناتواں کندھوں پر رنج و الم کا یہی بار اٹھائے ہوئے ہے اور اُس کا دل جواں بیٹے کی یاد میں پھٹا جا رہا ہے۔ اس کی آنکھیں پر نم ، ہونٹ خاموش اور ذہن سوالات کا ایک سمندر بنا ہوا ہے۔

یہ ساٹھ سالہ عورت روزانہ اپنے بیٹے کی قبر پر جاتی ہے۔ وہ اب بھی اپنے لختِ جگر کے کپڑے، جوتے اور شیو کا سامان ایسے اپنے پاس رکھتی ہے کہ جیسے اس کی پوری زندگی کا بس یہی سرمایہ ہو۔

ضلع چکوال ہی کا ایک دوسرا علاقہ تلہ گنگ بھی رنج والم میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی دیواروں پر حوالدار استحزارحسین کی تصویروں والے پوسٹرز چسپاں ہیں۔ یہ فوجی پاکستان آرمی کے اسپیشل سروسز گروپ سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل جب طالبان جنگجوؤن نے آرمی ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں چالیس لوگوں کو یرغمال بنایا تو فوج نے ان کے خلاف کمانڈو آپریشن کیا تھا۔

استحزار حسین نے رضاکارانہ طور پر اس آپریشن میں قیادت کی ذمہ داری لے لی۔ آپریشن کے نتیجے میں یرغمالی تو چھوٹ گئے لیکن پندرہ افراد اس کارروائی میں ہلاک بھی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں استحزار حسین بھی شامل تھا۔ اُس کی تئیس سالہ بیوہ خالدہ کا کہنا ہے کہ حسین نے دس اکتوبر کو اُسے فون کر کے کہا کہ اُسے فون نہ کیا جائے۔ یہ فون کال اُس نے آپریشن سے چند گھنٹے پہلے کی تھی۔ دوسرے دن اس کی لاش لائی گئی اور خالدہ کی ساری خوشیاں اس کے شوہر کی موت کے ساتھ ہی اس سے رخصت ہو گئیں۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: مقبول ملک