1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کون ہیں؟

15 جون 2009

پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے وادیء سوات میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے ساتھ ساتھ اب تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ بیت اللہ محسود کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/IAHJ
طالبان عسکریت پسندوں نے آپریشن کے بعد پاکستان بھر میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہےتصویر: AP

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر اویس غنی نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی افواج کے وادیء سوات میں جاری آپریشن ’’راہ راست‘‘ کے نتیجے میں ملک میں خودکش بم دھماکوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

بیت اللہ محسود پر پاکستان بھرکے مختلف علاقوں میں کئے گئےاکثرخودکش حملوں اور بم دھماکوں کا الزام ہے۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم بینظیربھٹو کے قتل کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد کی جاتی ہے۔

پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان سے ملحقہ شمال مغربی پاکستانی سرحد پر آباد پشتون نسل سے ہے۔ ان پشتون عسکریت پسندوں میں زیادہ تر وہ طالبان ہیں، جو2001ء میں افغانستان میں امریکی حملوں کے بعد افغانستان سے نکل کر پاکستانی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

پاکستان میں طالبان تحریک طالبان پاکستان(TTP) کے نام سے بنائی گئی تنظیم کے نام سے کارروائیوں میں مصروف ہیں، جو بیت اللہ محسود کی قیادت میں متحرک ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے مارچ میں بیت اللہ محسود کی گرفتاری کے لئے اطلاع دینے پر پانچ ملین ڈالر کا انعام بھی مقرر کیا تھا۔

Keine Chance für afghanische Flüchtlinge
پاکستانی عوام اب کھل کر طالبان کی مخالفت کر رہے ہیںتصویر: AP

TTP کی ایک ذیلی تنظیم تحریک طالبان سوات ہے، جس کی قیادت کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ کر رہے ہیں۔ سوات کے طالبان نے علاقے میں غربت، نا انصافی، جاگیر داری اور عوام میں امریکہ کے خلاف نفرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معصوم عوام کو طالبان تحریک میں شامل ہونے کی رغبت دی۔ انٹیلی جینس ذرائع کے مطابق ان سینیئر طالبان نے خواتین کوبھی مجبور کیا کہ وہ اپنے بیٹوں کو اس تحریک میں حصہ لینے پر قائل کریں۔ تحریک طالبان سوات کی جانب سے مسلح کارروائیوں کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز وادی سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر علاقوں میں ان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔

انٹیلی جنس حکام اور عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق بیت اللہ محسود کی زیر قیادت کام کرنے والی تنظیم تحریک طالبان پاکستان القاعدہ تنظیم کی اتحادی ہے اور ان کے تعلقات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس گروپ کو بیرونی ممالک سے بھی امداد مہیا کی جاتی ہے، جن میں عرب ممالک اور سینٹرل ایشیا کی کئی ریاستیں شامل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ القاعدہ کے بہت سے رہنما پاک افغان بارڈر کی حدود میں روپوش ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان تنظیم کے سربراہ ملا عمرکی حلفیہ حمایت کرتی ہے۔ یہ تحریک افغانستان میں مغربی اتحادی افواج کے خلاف لڑائی میں اپنے عسکریت پسند بھجواتی رہی ہے۔ یہ تنظیم افغان طالبان کی حمایت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی افغان اسلامی طرز حکومت کا نفاذ چاہتی ہے۔

پاکستانی طالبان کے کچھ دھڑے پاکستان میں کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہوئے صرف افغانستان پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے حامی ہیں تاہم بیت اللہ محسود اور مولانا فضل اللہ پاکستانی حکومت کے خلاف کارروائیوں پر یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ پاکستان، القاعدہ اور افغان طالبان کے خلاف تحریک میں امریکہ اور اتحادی جماعتوں کا حامی ہے۔

انٹیلی جینس حکام کے مطابق پاکستانی طالبان، صوبہء سرحد کے بعد دیگر صوبوں میں کارروائیوں کے لئے دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، جن میں سب سے اہم مرکزی پنجاب کی کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ہے، جسے پاکستان میں القاعدہ کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ : عروج رضا، ادارت: امجد علی