1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالب علموں کی ایجادات و کمالات

دانش بابر۔ پشاور11 اگست 2016

کچھ نیا کرنے کی لگن اور عوام کی بھلائی کے سوچ ذہن میں لیے کچھ پاکستانی طالب علم ایسی ایجادات کرنے میں مصروف ہیں، جن سے دور حاضر کے مسائل پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JgNu
Pakistan Innovative Technologien
چھ ہونہار طلبہ نے قریب پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے شمسی توانائی سے چلنے والی ایک گاڑی کا ماڈل تیار کیا ہےتصویر: DW/D. Baber

توانائی کے بحران اور عالمی ادارہ برائے صحت کے ایک حالیہ رپورٹ، جس میں خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا تھا، کے بعد پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک ایسی گاڑی بنانے کی ٹھان لی، جو نہ صرف ماحول دوست ہو بلکہ پٹرول یا گیس کے بغیر چل سکے۔

شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی

چھ ہونہار طلبہ نے قریب پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے شمسی توانائی سے چلنے والی ایک گاڑی کا ماڈل تیار کیا ہے۔ اپنی اس کاوش کے بارے میں ابرار اللہ کہتے ہیں، ’’ہماری بنائی ہوئی یہ گاڑی شمسی توانائی سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے، اگر سورج کی روشنی موجود نہ ہو تو اس کار کو بیٹری سے بھی چلایا جاسکتا ہے۔‘‘

اس پراجیکٹ سے وابستہ ایک اور طالب علم احسان اللہ خان کا کہنا ہے کہ مینوئل چلانے کے علاوہ اس کار کی آٹومیشن کے لیے انہوں نے بلیوٹوتھ کا استعمال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اینڈرایئڈ فون کی مدد سے اس گاڑی کو کنٹرول بھی کیا جاسکتا ہے۔

طلبہ کے اس گروپ کا کہنا ہے کہ پشاور کو آلودگی سے صاف کرنے کے لیے اس قسم کی گاڑیوں کی اہم ضرورت ہے، جس سے نہ صرف توانائی کے بحران میں کمی آئے گی بلکہ فضائی اور شور کی آلودگی سے پاک ماحول بھی میئسر آئے گا۔

Pakistan Innovative Technologien
عبید یوسف کے مطابق باورچی خانے کے ایک ٹن فاضل مادے سے تین سو بیس کلو تک بائیو گیس پیدا کی جاسکتی ہےتصویر: DW/D. Baber

کچن کے کچرے سے بائیو گیس

جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر صرف کراچی کا نہیں بلکہ پاکستان کے ہر بڑے شہر کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ کچرے کو کیسے مخفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے؟ اس مسئلے کا حل خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے ایک طالب علم عبید یوسف اور اس کے دو ساتھیوں نے نکال لیا ہے۔ انہوں نے ابتدائی طور پر کچن کے فاضل مواد سے بائیو گیس بناکر کچن ہی کا چولہا جلایا۔

عبید یوسف کے مطابق باورچی خانے کے ایک ٹن فاضل مادے سے تین سو بیس کلو تک بائیو گیس پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس گیس کی مدد سے بائیو جنریٹر چلا کر ملک میں بجلی کے بحران پر کافی حد تک قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔

عبید یوسف اپنے اس پراجیکٹ کے بارے میں کہتے ہیں، ’’یہ ایک سادہ مکینزم ہے، جس میں گھر کے فاضل مواد کو ڈال کر بائیو گیس پیدا کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ منصوبہ درست طریقے سے نافذ کیا جائے تو بہت ہی کم عرصے میں ملک کچرے سے صاف ہوجائے گا۔‘‘

عبید کے بقول بائیو گیس بننے کے بعد رہ جانے والا فاضل مادہ ایک بہترین کھاد کی صورت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

گاڑی کے لیے سمارٹ بریکنگ سسٹم

ہم اکثر سڑکوں پر رونما ہونے والے حادثات کے بارے میں سنتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق ان میں بیشتر واقعات گاڑی کے بریک بروقت نہ لگنے یا فیل ہوجانے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے طلبہ نے گاڑیوں کے لیے ایک ایسا سمارٹ یا اینٹلیجنٹ بریکنگ سسٹم متعارف کرایا ہے، جو کہ ڈرائیور کی کوتاہی کی صورت میں خود کار طریقے سے گاڑی کی رفتار کم کرنے یا بریک لگانے میں پہل کرتا ہے۔

یہ ایجاد کرنے والے ولید علی شاہ کہتے ہیں، ’’ہم نے گاڑی کے لیے سپیڈ اور ڈسٹنس سنسرز کی مدد سے ایک ایسا نظام بنایا ہے۔ جو گاڑی کی رفتار کے مطابق سامنے آنے والی گاڑی یا رکاوٹ وغیرہ کی نشاندہی کرکے آٹومیٹک طریقے سے بریک لگاتا ہے۔‘‘

Pakistan Innovative Technologien
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے طلبہ نے گاڑیوں کے لیے ایک سمارٹ بریکنگ سسٹم متعارف کرایا ہےتصویر: DW/D. Baber

وہ کہتے ہیں اس سمارٹ سسٹم کو مخصوص فاصلے کا بتایا جاتا ہے، جس سے پہلے اگر ڈرائیور نے خود بریک لگائی تو یہ 'سسٹم سٹینڈ بائے‘ رہ جائے گا، جبکہ دوسری صورت میں حادثے سے بچنے کے لیے خود کار بریک لگ جائے گا۔

ولید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابتدائی طور پر یہ ماڈل تیس ہزار روپے کی لاگت سے تیار کیا ہے، جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ صنعتی طور پر بنانے میں قیمت میں کمی کے علاوہ اس کی پائیداری میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر انجینئر خالد الرحمن سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے تاہم ان طالب علموں کی ایجادات اور ماڈلز کو کمرشلائز کرنے کی ضرورت ہے، جس سے طالب علموں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور ان کے ایجادات محض ماڈلز یا پروٹوٹائپ تک محدود نہیں رہیں گے، ’’صنعتی سطح پر متعارف کرنے سے ان ایجادات سے ملکی سطح پر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔