1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی عدالتی نظام

6 جولائی 2009

پاکستان کے عدالتی نظام میں موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی خواہش ہے کہ ایسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ فوری انصاف کا عمل ممکن ہو سکے۔ اِس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل قومی عدالتی پالیسی بھی پیش کی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/Ihc4
پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری : فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

قومی عدالتی کانفرنس میں عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے کےلئے سفارش کی گئی ہے کہ عدالتی افسروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ تمام صوبوں میں ججوں کی تنخواہیں یکساں کی جائیں اور میرٹ کی بالا دستی یقینی بنائی جائے۔

سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو بھی قابل احتساب ہونا چاہئے جب تک بارز کے ارکان ایماندار نہیں ہوں گے عدلیہ میں کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔ اتوار کواسلام آباد میں قومی عدالتی پالیسی کے نفاذ کے موضوع پر ہونے والی قومی جوڈیشل کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز مختلف ورکنگ گروپس کی جانب سے تیار کی گئی سفارشات پیش کی گئیں۔

جسٹس جاوید اقبال نے اپنے ورکنگ گروپ کی تیار کی گئی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقدمات کے التواء اور ان کی تعداد میں اضافے کے چالیس اسباب سامنے آئے ہیں۔ ان میں باقاعدہ منصوبہ بندی اور نگرانی کا فقدان، ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتوں کا نہ ہونا ،لائبریریوں کی کمی، مطلوبہ تربیتی سہولتوں کا فقدان، عدالتی افسروں کی کمی، عدالتی افسروں کے مسلسل تبادلے، غیر پرکشش ملازمت اور دیگر اسباب شامل ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال نے تجویز پیش کی کہ چاروں صوبوں میں ججوں کی تنخواہیں یکساں کی جائیں۔سن دو ہزار دو کے پولیس آرڈر میں ترامیم کی جائیں،لاء کالجز کے نصاب میں تبدیلی کی جائے اور تمام مقدمات کے فیصلوں کی کاپیاں بغیر فیس کے فراہم کی جائیں۔

جسٹس سردار رضا نے اپنے خطاب میں تجویز پیش کی کہ مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لئے سینئر وکلاء سے مدد لی جائے۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے کا کہنا ہے کہ عدلیہ میں عملے کی تعیناتی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ہر سطح پر میرٹ کے مطابق بھرتیاں کی جانی چاہئیں۔ عدالتی عملے کی مداخلت کو جدید ٹیکنالوجی سے کم کیا جائے ،ججز سرکاری تقریبات میں شرکت نہ کریں اور سرکاری افسروں سے رابطے نہ رکھیں۔

جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے یہ بھی کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کو بھی قابل احتساب ہونا چاہئے جب تک وکلاء کی بار کونسلوں کے ارکان ایماندار نہیں ہوں گے اس وقت تک عدلیہ میں کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، عدلیہ کو کسی شخصیت کا نہیں خدا کا خوف ہونا چاہئے۔ انہوں نے تجویز دی کہ قانون اور عدلیہ سے متعلق بار رومز کےلئے لیکچرز کا اہتمام کیا جائے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے چیف جسٹس ہائی کورٹس کے ججز پر مشتمل گروپ کی طرف سے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی سطح پر کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے۔ ان کانفرنسوں میں ضلعی ججوں کے علاوہ بارز کے عہدیداروں اور سابق چیف جسٹس صاحبان کو بھی بلایا جائے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خصوصی عدالتوں کی آسامیاں پر کریں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر جوڈیشل اکیڈمیوں میں تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ وکلا کی بار تنظیموں کے عہدیداروں کو اکیڈمیوں میں تربیت کی پیشکش کی جائے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو بیرون ملک تربیتی مواقع فراہم کئے جائیں۔

جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے تجویز پیش کی کہ سول کورٹس کے مقدمات کی فیس مقرر کی جائے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں لیگل ایڈ کمیٹیاں بنائی جائیں جو کسی فیس کے بغیر مقدمہ دائر کریں۔ جسٹس ریٹائرڈ بھگوان داس نے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے عدالتی افسروں کی ایڈہاک بنیاد پر بھرتی کر کے عدالتی عمل میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔

شکور رحیم ، اسلام آباد : ادارت، عابد حسین