1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی وزیر خزانہ شوکت ترین مستعفی

23 فروری 2010

پاکستانی سینیٹر اور پیشے کے اعتبار سے ایک بینکار شوکت ترین نے اپنی نجی کاروباری مصروفیات کو ملکی وزیر خزانہ کے طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی وجہ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/M9RK
ناقدین کے مطابق شوکت ترین ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں ناکام رہےتصویر: AP

شوکت ترین کے اپنی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے چند حکومتی عہدیداران سے مبینہ اختلافات کے سبب استعفے کی خبریں پچھلے کچھ دنوں سے ملکی ذرائع ابلاغ میں نمایاں تھیں۔ منگل کو جاری ہونے والے ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شوکت ترین کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے انہیں حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں کے تسلسل کےلئے اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن کے طور پر اپنی خدمات کی انجام دہی جاری رکھنے کے لئے کہا ہے۔ اس اعلامیے کے مطابق شوکت ترین 28 فروری تک وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔

پاکستان کے ایک سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے شوکت ترین کے استعفے کو ملکی معیشت کے لئے بری خبر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ایک نئے مالیاتی منتظم کےلئے ملکی معیشت کو سہارا دینا آسان نہیں ہوگا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے موجودہ وزیر خزانہ کے استعفے کا وقت پاکستانی معیشت کے لئے انتہائی نامناسب ہے، کیونکہ اس وقت پاکستان ایک تو ویسے بھی بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہے اور دوسرے آئی ایم ایف کا پروگرام بھی ابھی چل رہا ہے جس کو تسلسل کی ضرورت تھی۔ ’’یہ ایک انتہائی سنجیدہ صورتحال ہے جو نئے وزیر خزانہ کےلئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘

Pakistan Ministerpräsident Yousaf Raza Gilani
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانیتصویر: Abdul Sabooh

اسی دوران بعض ناقدین پہلے مشیر خزانہ اور پھر گزشتہ برس سینیٹر منتخب ہونے کے بعد وزیر خزانہ کا تاج اپنے سر پر سجانے والے شوکت ترین کے استعفے کو نجی مصروفیات سے زیادہ ان کی مبینہ نا اہلی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں معروف ماہر اقتصادیات شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ شوکت ترین پاکستانی معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کے اپنے بلند بانگ دعووں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے اور اسی لئے انہوں نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ ’’نہ صرف یہ بلکہ شوکت ترین کے دور میں نہ تو ملکی معیشت میں کوئی بہتری آئی اور نہ ہی اس شعبے میں کوئی کامیابی حاصل ہوئی، بلکہ جس سطح پر ملکی معیشت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی گئی تھی، اس کے بعد بہت سے شعبوں میں مزید خامیاں بھی پیدا ہوئیں۔‘‘

شاہد حسن صدیقی کے مطابق مثال کے طور پر شوکت ترین نے فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حوالے سے پاکستان کو گمراہ کیا۔ ’’پچھلے ہفتے تک وہ بارہا یہ کہتے رہے کہ ہمیں فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان سے نئی رقوم ملیں گی اور بجٹ میں بہت سی خامیاں دور ہو جائیں گی۔ میرے خیال میں یہ قوم اور ملک کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘

دریں اثناء گیلانی حکومت نے نئے وزیر خزانہ کے طور پر نامزدگی کے لئے مختلف ناموں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ وزارت وزیر صحت مخدوم شہاب الدین کے علاوہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین اور ایک معروف بینکار نسیم بیگ میں سے کسی ایک کو سونپے جانے کا امکان ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عدنان اسحاق