1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

پاکستان: آزادانہ تبدیلی مذہب، روا داری کا ثبوت

30 مارچ 2017

پاکستان میں ایک یہودی شہری کو کئی دہائیوں بعد اپنا مذہب اختیار کرنے کی سرکاری طور پر اجازت دے دی گئی ہے۔ فیصل بن خلد کا اپنے لیے منتخب کردہ یہودی نام فشل ہے۔

https://p.dw.com/p/2aLr7
Geschichte über die Juden in Sarajevo
تصویر: DW/M. Shwayder

فشل کا نادرا کے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ میں درج مذہب بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں مذہبی روا داری کی ایسی مزید مثالیں سامنے آنا چاہییں۔ کشور مصطفیٰ کا تبصرہ

پاکستان کے کثیرالثقافتی اور کثیرالسانی شہر کراچی میں پیدا ہونے والے اس پاکستانی شہری کی والدہ یہودی اور والد مسلمان تھے۔ گھر والوں نے ان کا نام بن خلد رکھا تھا تاہم اپنے دیگر بھائی بہنوں کے برعکس بن خلد میں والدہ کی طرف سے ان کے یہودی اسلاف کی سی بود و باش پائی جاتی تھی اور وہ اپنی والدہ کو یہودی رسم و رواج نبھاتے دیکھ کر واپس اپنی جڑوں کی طرف لوٹنا چاہتے تھے۔ والدین کے انتقال کے وقت وہ ایک ٹین ایجر تھے اور اس کے بعد سے اُن کی پرورش اُن کے سخت گیر موقف کے حامل چچا نے کی تھی۔

فشل نے تاہم دو سال قبل نادرا میں اپنے مذہب کو تبدیل کرانے کے لیے ایک درخواست جمع کرائی تھی۔ تب نادرا نے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس دوران برٹش پاکستانی کرسچن ایسوسی ایشن کے چیئرمین ولسن چوہدری کو بن خلد کی اپنا مذہب تبدیل کرانے کی کوششوں کا علم ہوا تو انہوں نے نادرا سے رجوع کیا۔ چوہدری کے مطابق نادرا کے حکام کی طرف سے بن خلد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر ان کے مذہب کو تبدیل کرنے کی درخواست پر مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا تھا اور اس بارے میں انہیں کسی قسم کی معلومات بھی فراہم نہیں کی گئی تھیں۔

ولسن چوہدری، جن کا کہنا ہے کہ انہیں ’پاکستان مخالف‘ قرار دے کر اُن پر پاکستان میں پابندی عائد کی جا چکی ہے، نے بن خلد کے بارے میں برطانوی پارلیمان کے اہتمام کردہ اجلاسوں میں بھی آواز بلند کی۔ اس ضمن میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے موضوع پر ہونے والے پارلیمانی اراکین کے ایک اجلاس میں یہ معاملہ اُٹھایا گیا تو اس پر بحث بھی ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رواں برس جنوری میں لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن اور اُس کے بعد اسلام آباد میں ملکی وزارت داخلہ تک میں بن خلد کیس کی بازگشت سنائی دی۔

Mustafa Kishwar Kommentarbild App
کشور مصطفیٰ، سربراہ ڈی ڈبلیو اردو

پاکستان مسیحی شہری آسیہ بی بی کیس اور ملک میں دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ کیے جانے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے عالمی سطح پر خاصے دباؤ کا شکار ہے۔ ابھی بُدھ انتیس مارچ ہی کو برسلز میں جنوبی ایشیائی ملکوں پاکستان، بھارت اور نیپال میں مسیحی اور احمدی اقلیتوں کو درپیش مسائل پر یورپی پارلیمنٹ کے کنزرویٹو ریفارمسٹ گروپ کی ایک کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا، جس میں اراکین پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شرکت کی۔

اس موقع پر پاکستانی نمائندے امجد نذیر نے یورپی یونین سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ اسلام آباد جی ایس پی پلس سے جڑی شرائط پر عملدرآمد کرے، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اور تمام مکاتب فکر کے لیے آزادی سے اور بلا خوف و خطر مذہبی فرائض کی ادائیگی کو ممکن بنائے۔

تین برس سے اپنا مذہب تبدیل کرنے کے قانونی حق کے حصول کے منتظر فشل بن خلد کو رواں ہفتے منگل کو یہ اطلاع ملی کہ اُنہیں اس کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم انہیں  اُن کا نیا پاکستانی شناختی کارڈ ابھی تک نہیں ملا۔ اس طرح قریب 200 ملین کی آبادی والے ملک پاکستان میں فشل بن خلد وہ واحد شہری ہیں، جن کے نام کا اندراج بطور یہودی ممکن ہو سکا ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اسی ملک میں بیسیوں دیگر یہودی باشندے بھی آباد ہیں جو یا تو خاموشی سے گمنامی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں یا جنہوں نے بظاہر اپنے نام مسلمانوں کی طرح رکھے ہوئے ہیں۔

’’دین میں کوئی جبر نہیں۔‘‘ اسلام کے اس بنیادی اصول پر جو بھی مسلمان عملاﹰ یقین رکھتا ہے، اسے پرامن سماجی بقائے باہمی کی سوچ کے تحت اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان میں بہت سست رفتاری سے ہی سہی مگر مذہبی روا داری کا رجحان دیکھنے میں آنے لگا ہے اور اس سلسلے میں اٹھائی جانے والی آوازیں بھی مؤثر ہونے لگی ہیں۔