1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ،امریکہ عسکری مفاہمت

امتیاز گل، اسلام آباد14 فروری 2009

پاکستانی عوام اس وقت ایک غیرمعمولی تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ انہیں سیاسی رہنماؤں اور فوجی قیادت کی طرف سے مختلف بیانات سننے کو مل رہے ہیں ۔

https://p.dw.com/p/GuK9
تصویر: AP

ایک طرف صدر آصف علی زرداری نے تازہ بیان اور انٹرویوز میں طاقت کے استعمال کو انتہاءپسندوں سے نمٹنے کا واحد ذریعہ بتایا ہے اورکہا ہے کہ مٹھی بھر عسکریت پسندوں کو ملک پر اپنے رجعت پسندخیالات اور نظریات کو مسلط نہیں کرنے دیا جائے گا ۔دوسری طرف وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعے کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی آپریشن فاٹا اور دوسرے علاقوں میں عسکریت پسندی کے خاتمے کاواحد حل نہیں ہے۔

وزیر اعظم اور صدر کے انہی بیانات کے ساتھ ہفتے کی صبح جنوبی وزیرستان کے لدھانامی گاﺅں پر دو میزائل حملوں میں تین درجن کے قریب افراد جن میں اکثریت ازبک باشندوںکی بتائی جاتی ہے ہلاک ہوگئے یہ حملہ امریکی سینٹ میں سینیٹر ڈی این فائن سٹائن کے اس بیان کے ایک روز بعد ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ بغیر پائلٹ کے جن طیاروں سے میزائل داغے جاتے ہیں وہ پاکستانی فضائیہ کے اڈے استعمال کر رہے ہیں۔ سابق خارجہ سیکرٹری ریاض کھوکھر کے مطابق اعلیٰ ترین قیادت کے مابین اہم امور پر ہم آہنگی کی کمی اور امریکی میزائل حملے انتہائی تشویشناک ہیں اور ان سے ملک دشمن عناصر بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

” اگر پاکستان کے حالات دیکھیں تو سیاسی یا دفاعی لحاظ سے کوئی ہم آہنگی نہیں ہے اور معاشی لحاظ سے بھی ہم آج بہت کمزور حالت کے حامل ہیں۔ قومی سطح پر ان معاملات کا حل نہ ہوا تو ہمارے اندرونی مسائل اور بھی بڑھ جائیں گے ۔ میرے خیال میں اندرونی مسائل ہی ہمارے بنیادی مسائل ہیں جن میں مزید اضافہ ہو گا “۔

مبصرین کے خیال میں صدرزرداری کے تازہ ترین بیان اور وزیرستان پر ایک اور میزائل حملے سے ظاہرہوتا ہے کہ اس معاملے پر کم ازکم پاکستان کی سیاسی حکومت اور امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی نہ کوئی مفاہمت ضرور موجود ہے ۔