1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان تناؤ مزید سنگین

27 جولائی 2011

پاکستان کے سرکاری اداروں میں مبینہ بدعنوانیوں کی چھان بین کے معاملے پر عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ سرکاری افسران کو براہ راست عدالت میں طلب نہ کرے۔

https://p.dw.com/p/125A5
سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت اربوں روپے کی مبینہ بدعنوانیوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔تصویر: Abdul Sabooh

دوسری طرف وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔

اس وقت سپریم کورٹ میں اربوں روپے کی مبینہ بدعنوانیوں کے جو مقدمات زیر سماعت ہیں ان میں سٹیل مل کرپشن کیس، نیشنل انشورنس کارپوریشن سکینڈل اور گزشتہ برس حج انتظامات میں بے ضابطگی شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل کیس میں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی ظفر قریشی کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا جنہوں نے با اثر ملزمان سے 1.74 ارب روپے بھی وصول کیے جبکہ اس مقدمے میں سینئر وزیر پرویز الٰہی کے صاحبزادے اور پنجاب کے رکن اسمبلی مونس الٰہی بھی زیر حراست ہیں۔ تاہم ق لیگ کے ساتھ حکومتی اتحاد کے بعد حکومت نے ظفر قریشی کو اس مقدمے سے الگ کر دیا۔ حکومت نے بارہا عدالتی احکامات کے بعد ظفر قریشی کو دوبارہ اس کیس کی تفتیش سونپ دی مگر بعد میں انہیں معطل کر دیا ۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے جو ایک دو روز میں سنایا جائے گا۔

Symbolbild Geldwäsche
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے سبب بین الاقوامی امدادی اداروں اور ممالک کے سامنے بھی پاکستان کا تاثر درست نہیں۔تصویر: fotolia

اسی طرح حج کرپشن کیس کے تحقیقاتی افسر حسین اصغر کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس مقدمے میں سابق وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی ابھی تک زیر حراست ہیں جبکہ ایک دوسرے وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کو حامد کاظمی کے ساتھ الفاظ کی جنگ کے بعد ان کے عہدے سے محروم کر دیا گیا ۔ اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ انہیں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے پر برطرف کیا گیا اور اب کرپٹ حکومت عدالتی احکامات کا مذاق اڑا رہی ہے۔ ’’آج اس کرپشن کی وجہ سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر رہی ہے، لوگوں میں اس ملک کے اندر مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے ہمارے ارباب اختیار اور حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے بلکہ تمام عدالتوں کے احکامات کو من و عن نافذ کیا جائے۔ یہی جمہوریت کی اساس ہے۔‘‘

عدالتی حکم پر حسین اصغر کو حج کرپشن کیس کی تحقیقات دوبارہ سونپنے پر ملک کے سب سے اہم بیورو کریٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سہیل احمد کو حکومت نے افسر بکار خاص بنا دیا۔ اس معاملے کا بھی سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے اور بدھ کے روز مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ایماندار افسروں کو عدالتی احکامات ماننے پر سزا نہ دی جائے۔ عدالت ایسے قابل افسران کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔

اس مقدمے کی سماعت کے موقع پر ہی لاہور ہائیکورٹ بار راولپنڈی بینچ کے صدر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وکلاء عدلیہ کے ادارے کا تقدس پامال نہیں ہونے دیں گے۔

’’ہم نے عدالت کے ذریعے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ من و عن عدالت عظمٰی کے فیصلوں پر عملدرآمد کرے۔ عدالت کے فیصلوں کا مذاق نہ اڑائے اور اگر ایسی ضرورت پڑی کہ وکلاء برادری کو اس سلسلے میں قربانیاں دینی پڑیں تو ہم نہ صرف مظاہرے کریں گے، سڑکوں پر آئیں گے اور وقت نے تقاضا کیا، عدالت کے تقدس اور حرمت کی بات آئی تو جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کرینگے۔‘‘

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے سبب بین الاقوامی امدادی اداروں اور ممالک کے سامنے بھی پاکستان کا تاثر درست نہیں اور وہ مختلف مواقع پر پاکستان کی امداد میں ہچکچاہٹ سے کام لیتے ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی